• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تین سال پہلے میں نے لکھا تھا ’’میلہ چراغاں کسی زمانے میں لاہور کا سب سے بڑا تقافتی تہوار ہوا کرتا تھا۔یہ میلہ شالامار باغ کے اندراور اس کے گرد ونواح میں لگا کرتا تھا۔ یہ دراصل گزشتہ مسلسل پانچ سو سال سے جاری مادھو لال حسین کا تین روزہ عرس تھا، جسےوقت نے اتنی عوامی پذیرائی دی کہ وہ میلے میں بدل گیا۔ پچھلے دنوں میلہ چراغاں کو سرکاری طور پر شاہ حسینؒ کا عرس قرار دیا گیا مگر عوام نے اسے کامیاب نہ ہونے دیا‘‘۔

مجھےاس بات کی بے پناہ خوشی ہوئی کہ اس سال سرکاری طور پر میلہ چراغاں منانے کا اعلان ہوا۔ یہ مرتی ہوئی ثقافت کو زندہ کرنے کا کام کامران لاشاری کے حصے میں آیا یعنی میلہ چراغاں کے انعقاد کاکام والڈ سٹی اتھارٹی کے سپرد کیا گیا ہے۔ ایک اور بات کی بھی خوشی ہوئی کہ ستاسٹھ سال کے بعد دوبارہ میلہ چراغاں شالا مار باغ کے اندرہی منایا جا رہا ہے۔ شالا مارباغ جو باغوں میں سب سے خوبصورت تھا۔ پچھلے پندرہ سال میں اس کا یہ حال ہو گیا تھا کہ قبضہ گروپ کے ایک لیڈر نےکسی افسر سے کہا ’’یار کوئی ایسا طریقہ نکالو کہ حکومت شالامار باغ کو نیلام کر دے مگر جب یہ تاریخی باغ والڈ سٹی کے حوالے ہوا تو ایک بار پھر اسکی سابقہ حیثیت بحال ہوئی مگر مجھے ایک پریشانی ابھی تک ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جی ٹی روڈ وہاں سے کئی فٹ اونچا ہو گیا ہے۔ سو بارشوں کے موسم میں شالامار باغ کے تینوں تخت تالاب بن جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اس تاریخی ورثے کا خاصا نقصان ہو جاتا ہے پھر کروڑوں روپے لگا کر اسے درست کرنا پڑتا ہے۔ بڑا ضرور ی ہے کہ وہاں انڈر گرائونڈ واٹر ٹینک بنا یا جائے جیسے لاہور کے کئی اور علاقوں میں بنائے گئے ہیں۔

میلہ چراغاں کی تاریخ بیان کرتے ہوئے آغا اشرف اپنی کتاب ’’ایک دل ہزار داستان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ میلہ چراغاں پر ’’بولیاں ٹھولیاں زیادہ تر دیہاتیوں کی ٹولیاں الاپا اور گایا کرتی تھیں، بھنگڑا بھی زیادہ تر دیہاتی لوگ ہی ڈالا کرتے تھے، اس کے علاوہ میلے میں لاہور کی مشہور گانے والیوں کے مجرے ہوتے، بھانڈوں کی نقلیں ہوتیں، ہیر رانجھے کے سوانگ بھرےجاتے تھے‘‘۔ مجھے والڈ سٹی والوں سے پوری توقع ہے کہ وہ ماضی کی روایت کے مطابق میلہ چراغاں کا انعقاد کریں گے۔ وہاں فوک آرٹ کا پوری طرح مظاہرہ کیا جائے گا۔ بلکہ اب تو اس میلہ چراغاں کو پورے پاکستان کے تصوف کے ساتھ جڑے ہوئے فوک آرٹ کا ترجمان بنا دینا چاہئے کہ ایسی مضبوط اور توانا ثقافتی روایت ہمارے پاس اور کوئی نہیں۔ کتنا اچھا ہو کہ مستقبل میں میلہ چراغاں پاکستان فوک روایت کا امین ہو۔

اسلام میں بھی چراغ کی بڑی اہمیت ہے۔ چراغ کے متعلق قرآن حکیم میں آتا ہے۔ ’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال یہ ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو‘‘ سنن ابی دائود میں ایک روایت ہے کہ بیت المقدس کے متعلق حضورﷺنے فرمایا کہ تم وہاں جاؤ اور اس میں نماز پڑھو۔ اگر تم وہاں نہ جا سکو اور نماز نہ پڑھ سکو تو تیل ہی بھیج دو کہ اس کےچراغوں میں جلایا جا سکے۔ زمانہ ِ قدیم سے انسان کے پاس روشنی کا ذریعہ چراغ ہی ہیں سو اندھیروں کے خلاف اٹھنے والی ہر تحریک میں چراغ ہی روشن کیے جاتے تھے۔ مشعلیں ہی جلائی جاتی ہیں، حقیقت میں یہ تمام صوفی لوگ اپنے وقت کے باغی تھے۔ اس سلسلے میں منصور حلاج اور سرمد کے نام کھل کر سامنے آ گئے۔ شاہ حسین کو بھی اکبر بادشاہ قتل کرا دینا چاہتے تھے۔ شاہ حسین کی شاعری کا ایک بڑا حصہ علامتی طور پر اس زمانے کی سامراجی قوتوں کے خلاف ہے۔ صدیوں سے شاہ حسین کے مزار پردور دور سے لوگ دئیے جلاتے آ رہے ہیں۔ یہ دراصل اس بات کا اعلان ہے کہ ہم شاہ حسین کی روشنی کے ساتھ ہیں۔ ہم اس کے نظریےکے ماننے والے ہیں۔ اُس نظریے کو جس میں شاہ حسین مال و زر کو جوہڑ قرار دیتا ہے جوہڑ بھی ایسا جس سے سگانِ آوارہ پانی پیتے ہوں۔

شاہ حسین کے مزار پر جلنے والے چراغوں نے پورے لاہور کو میلہ چراغاں میں بدل دیا، خاص طور پر شامالا باغ جس میں تعمیر کے وقت شہزادوں اور شہزادیوں کیلئے دئیے جلانےکا باقاعدہ بندوبست کیا گیا تھا، وہاں عوام دئیے جلانے لگے۔ روشنی کیلئے جتنی آگ ممکن تھی لگائی جانے لگی اور پھر جب بجلی کے قمقمے آئے تو میلہ چراغاں کے موقع پر سارا علاقہ بقعہ ِنور بن جانے لگا۔ کون نہیں جانتا کہ چراغ ہی دنیا کو روشن کرتے ہیں۔ روشنی کسے پسند نہیں، کون اندھیروں میں رہنا چاہتا ہے۔ مولانا روم کہتے ہیں

ہر چراغی اگر دل روشن بود

در فروغ خود چو خورشید آمدود

یعنی ہر وہ چراغ جو دل سے جلتا ہے۔ اپنی چمک میں سورج کی طرح چمکتا ہے۔ میلہ چراغاں کے موقع پر بھی لوگ دل سے چراغ روشن کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس مرتبہ شاہ حسین کے مزار سے لے کر شالامار باغ تک بس دئیے ہی دئیے ہونگے، قمقموں سے ہر گلی منور ہو گی۔سارا لاہور جگمگا اٹھے گا۔

تازہ ترین