لاہور کی خوش نصیبی ہے کہ اس نے دو دن کے وقفے سے ہونے والی ان دو خوبصورت تقریبات سے رمضان المبارک کو الوداع کیا۔ امجد اسلام امجد (مرحوم) کی خواہش پر تیار کی گئی سیرت النبی ؐ پر 13منٹ کی ڈاکومنٹری گورنر ہاؤس کے خوبصورت دربار ہال میں ریلیز کی گئی۔ اس کی دیواروں پر لگی پہلے انگریز گورنر سے اب تک تمام سابق گورنروں کی تصاویر دیکھ کر تقریباً پونے دو سو سالہ تاریخ میرے سامنے گھوم گئی۔
فلم کی اسکریننگ سے قبل گورنر سردار سلیم حیدر خان نے حاضرین سے خطاب میں کہا ’’دنیا میں اسلام کا چہرہ مسخ کر کے دکھایا جاتا ہے۔ اسلئے اس طرح کی فلمیں غیر مسلموں کو بھی دکھائی جانی چاہئیں۔ اور اسطرح کی فلموں کا اثر لیکر مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ سیرت النبی ؐ پر عمل کریں۔ مثلاً جلد سونا اور جلد اٹھنا سنت نبوی ہے۔ اسلئے جب حکومت دکانداروں کو شام کے وقت کاروبار بند کرنے کا کہے تو وہ آدھی رات تک دکانیں کھولنے کے حق میں احتجاج کی بجائے حکومتی تجویز پر عمل کریں‘‘۔
اسکریننگ شروع ہوئی تو پتا چلا کہ یہ فلم اس سیریز کا تیسرا Episode ہے۔ جو نبی اکرمﷺ کے غیر مسلموں کے ساتھ معاملات کرنے سے متعلق ہے۔ یہ دنیا کی آٹھ زبانوں میں ریلیز ہو رہی ہے۔ فلم میں عارف باحلیم کی آواز میں کمنٹری نے بتایا کہ حضور ؐ اپنے اصحاب کو تلقین کرتے وقت حضرت موسیٰ ؑاور ان کی ساتھیوں کے صبر کی مثال دیتے تھے۔ حضورؐ نے ہر مذہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہب کی پیروی کرنے کی آزادی عطا فرمائی۔ دنیا کے تمام بادشاہوں کو اپنے خطوط کے ذریعے دعوت اسلام دی۔ ان خطوط پر مہر نبوت ثبت ہوتی تھی۔ اس ڈاکومنٹری میں حضورؐ کے زمانے کے مکانات اور آج کا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی دکھایا گیا ہے۔ جبکہ کیتھولک ننّوں (NUNS)، دیگر عیسائیوں اور یہودیوں کو عبادت کرتے بھی دکھایا گیا ہے۔ تا ہم انگریزی میں کندہ پلیٹوں کی اسپیڈ فلم میں اتنی تیز تھی کہ پڑھی نہ جا سکیں۔
فلم کے اختتام پر سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی نے اپنے خطاب میں کہا ’’اس طرح کی فلمیں دیکھنے والوں کے، سنت نبوی کے مطابق، تحمل اور قوت برداشت میں اضافہ ہو گا۔ اسلئے یہ ڈاکومنٹری فلم بنانے والی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے‘‘۔ فلم کے پروڈیوسر امجد اسلام امجد کے بیٹے نے تمام حاضرین جو احتیاط سے منتخب کیے گئے پچاس دانشور تھے، کا شکریہ ادا کیا۔ مگر ساتھ یہ بھی کہہ دیا ’’محمد ﷺ کی نعت کہنا اتنا مشکل کام ہے کہ اردو کے نمبر ون شاعر اسد اللہ غالب جب نعتیہ اشعار کہنے بیٹھے تو یہ کہہ کر کام ختم کر دیا کہ میں اس قابل ہی نہیں کہ ایسا عظیم کام کر سکوں‘‘۔ میرے خیال میں علی ذیشان امجد کا یہ نقطہ نظر درست نہیں۔ کیونکہ غالب کے دیوان میں اردو اور فارسی کے اعلیٰ پائے کے نعتیہ اشعار موجود ہیں۔ مثلاً غالب کے اس نعتیہ فارسی شعر کی ٹکر کا نعتیہ شعر شاید کسی شاعر کے کلام میں نہ ملے:
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است
محکمہ اطلاعات و ثقافت، پنجاب اور مجلس ترقی ادب لاہور کے زیر اہتمام الحمراء ہال نمبر2 میں منعقدہ نعتیہ مشاعرے کی نظامت انکم ٹیکس کمشنر بہاولپور رحمان فارس نے کی۔ جبکہ اس پاک محفل کی صدارت کا اعزاز اسلام آباد کے افتخار عارف کے حصے میں آیا۔ قومی اور پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں میں نعتیہ کلام پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنے کے لئے کل اکیس شعراء اکرام نے شرکت کی۔
بلوچستان کے ضلع کیچ، مکران کے ڈاکٹر زاہد دشتی نے بلوچی اور براہوی زبانوں میں جبکہ کوئٹہ کے علی کمیل قزلباش نے پشتو اور فارسی کلام کے ساتھ اس کا خوبصورت منظوم اردو ترجمہ پیش کر کے ڈھیر ساری داد وصول کی۔ آزاد کشمیر سے آئے گوجری زبان کے شاعر صفی ربانی، چنیوٹ کے رضا جعفری اور مظفر گڑھ سے آئے سرائیکی شاعر اصغر گورمانی کو بھی داد ملی۔ فیصل آباد سے آئی بشریٰ ناز نے پنجابی کلام سنا کر سما باندھ دیا۔ واجد امیر، حمیدہ شاہین، وصی شاہ، خالد ندیم شانی اور شکیل جاذب نے اردو میں جبکہ عباس تابش نے سرائیکی نعتیہ کلام سنا کر داد پائی۔
مشاعرے کے اختتام پر حاضرین اور شعراء اکرام کیلئے اعلیٰ پائے کے افطار ڈنر کا انتظام تھا۔ تاہم دعوت نامے پر بطور مہمان خصوصی نام درج ہونے کے باوجود وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نہ آئیں اور صوبائی سیکرٹری اطلاعات بھی موجود نہ تھے۔ ہال بھی آدھا خالی تھا۔ اگر حکومت پنجاب صحیح توجہ دیتی تو اتنا زیادہ خرچہ کرنے کی وجہ سے اسے پاپولر ایونٹ بنا کر عوام میں حکومت کا مہذب سافٹ امیج اجاگر کیا جا سکتا تھا۔
بہت زیادہ پسند کئے گئے کلام کے نمائندہ اشعار یوں تھے:
یہ سر اٹھائے جو میں جا رہا ہوں جانبِ ُخلد
مرے لیے میرے آقا نے بات کی ہوئی ہے
(افتخار عارف)
نظر سے جب بھی یہ تقویمِ روز و شب گزری
ہمیں بہار کا پہلا مہینہ یاد آیا
(خورشید رضوی)
بلا جواز کہاں کوئی بات ہوتی ہے
جو انکا اِذن ہو شامل، تو نعت ہوتی ہے
(صوفیہ بیدار)
یہ نویدِ بے نوا بھی آپ پر بھیجے درود
بخششوں کی ہے سند آقا! عنایت آپکی
(محمد نوید نواز)