(جمیل ادیب سیّد)
دن میں بھی وہ خیالوں میں سوتی ہیں لڑکیاں
میں کیا کہوں، کچھ ایسی ہوتی ہیں لڑکیاں
اِک دُھندلے، بُھولے بسرے تصوّر کے ہم رکاب
پلکوں میں آنسوؤں کو پروتی ہیں لڑکیاں
بیلا، گُلاب اور چنبیلی کے پُھول سے
رنگِ تخیّلات سموتی ہیں لڑکیاں
اَن دیکھے خواب مَن میں سجائے ہوئے مدُھر
اَن جانی کوئی بات پہ روتی ہیں لڑکیاں
ناگفتہ آرزوؤں کے سپنے لیے ہوئے
اپنے دِلوں میں خار چبھوتی ہیں لڑکیاں
اپنی بہن کو دیکھ کے مَیں نے یہ کہی نظم
میری بہن کی جیسی ہی ہوتی ہیں لڑکیاں
لڑکی نہیں ہوں، پھر بھی سمجھتا ہوں مَیں جمیل
حسّاس، بھولی بھالی سی ہوتی ہیں لڑکیاں