تحریر: نرجس ملک
ماڈل : ہیر علی
ملبوسات: SAB TEXTILE BY FARRUKH ALI
کوآرڈی نیشن : محمد کامران
عکّاسی : ایم کاشف
لے آؤٹ: نوید رشید
ممتاز مفتی نے ایک جگہ لکھا کہ ’’عورت نہ حُسن ہے، نہ جنس ہے، نہ جسم۔ کئی عورتیں آپ کے پاس سے گزر جائیں گی، لیکن آپ کو خبر بھی نہیں ہوگی اور کوئی عورت آپ سے بہت دُور کھڑی ہوگی، مگر آپ محسوس کریں گے کہ ایک عورت کھڑی ہے۔‘‘ اِسی طرح مشتاق احمد یوسفی اپنے مخصوص فکاہیہ اندازِ نگارش میں لکھتے ہیں۔ ’’عورتیں پیدائشی محنتی ہوتی ہیں۔ اِس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ صرف 12 فی صد خواتین خُوب صُورت پیدا ہوتی ہیں، باقی اپنی محنت سے یہ مقام حاصل کرتی ہیں۔‘‘ یوسفی صاحب نے تو یقیناً ازراہِ تفنّن ہی یہ بات کی، لیکن ممتاز مفتی کی بات میں خاصی گہرائی و گیرائی ہے۔ اور یہ فلسفہ صرف عورت ہی پر نہیں، شاید ہر ایک ہی پر لاگو ہوتا ہے۔
آپ خُود غور کریں کہ کیا زندگی میں بارہا ایسا نہیں ہوتا کہ ہمیں اپنا ’’مَن پسند‘‘ ہزاروں، لاکھوں کے مجمعے میں بھی نمایاں نظر آجاتا ہے اور جس سے ہمیں کوئی خاص انسنیت و رغبت، غرض و دل چسپی نہیں ہوتی، وہ آنکھوں کے عین سامنے بھی دکھائی نہیں دیتا۔ تو بات تو پھر ’’دل سے دل کو راہ‘‘ اور ’’حُسنِ نظر‘‘ ہی پر آکر ٹھہرتی ہے۔ جیسا کہ کرشن چندر نے لکھا کہ ’’عورتوں نے ہمیشہ گدھوں ہی سے عشق کیا ہے، عقل مند آدمی کو تو وہ پسند ہی نہیں کرتیں۔‘‘ بات یہ ہے کہ دانا و بینا سے عشق بھی کچھ کم گھاٹے کا سودا نہیں کہ زیادہ دانائی کا خمار بھی تو مقابل کو اپنے سامنے کچھ نہیں گردانتا، جب کہ اُس کی تعریف و توصیف کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اور عورت سے متعلق عام بات ہے کہ وہ پیٹ پر پتھر باندھ کے تو جی سکتی ہے، لیکن اپنی بےتوقیری نہیں سہہ سکتی۔ ’’تعریف و توصیف‘‘ توعورت کے لیے چلچلاتی دھوپ میں چھتنار سائے، تپتے ریگستان میں رِم جھم پھوار، کسی گہرے رِستے زخم پر نرم پھائے، مرہم پٹّی کے مِثل ٹھہرتی ہے۔
جیسا کہ ابھی فیس بُک پر ایک پوسٹ دیکھی کہ ’’اگر باورچی خانے میں کام کرتی عورت کو جاکر یہ کہہ دیں کہ ’’یہ تمہاری ہی ہمّت ہے، جو اِس شدید گرمی میں چولھے کے آگے کھڑی ہو، مَیں تو یہاں ایک منٹ نہیں ٹھہرسکتا۔‘‘
تو پَل بھر میں نہ صرف اُس کی دن بھر کی تھکن اُتر جائے گی بلکہ آگ کی حرارت بھی نسیمِ صُبح، بادِ بہاری کی مانند خوش گوار معلوم ہونے لگے گی۔‘‘
اگر تو آپ کی زندگی میں بھی کوئی ایسا ہے، جس کی موجودگی کا احساس، فاصلوں کا محتاج نہیں، تو اُسے یہ بات بتانے، اُسے جی بھر سراہنے میں ہرگز کوئی مضائقہ نہیں۔ اور اگر یوسفی صاحب کے کلیے کو بھی درست ہی مان لیا جائے، تو بھی ہماری کم از کم آج کی بزم تو اُن 12 فی صد ہی کی نمائندگی کررہی ہے کہ جو فطری، قدرتی طور پر حُسن و دل کشی کی دولت سے مالا مال ہیں۔ اُنھیں دوسروں کے لیے خواہ کتنی ہی کڑی مشقت کیوں نہ اُٹھانی پڑے، خُود پر کم سے کم محنت ہی کی ضرورت پڑتی ہے۔
وہ ایک پیاری سے نظم ہے ناں ؎ ’’تم ہنستی ہو… جیسے ساون گاتا ہے ملہار… تم روتی ہو… جیسے بارش، وہ بھی موسلا دھار… تم چلتی ہو… صُبح سویرے جیسے چلے ہوا… تم رُکتی ہو… مانگ رہا ہو، جیسے کوئی دُعا … تم سوتی ہو… ٹوٹ رہی ہو، جیسے کوئی انگڑائی… مَیں نے جتنے موسم دیکھے… یاد تمہاری آئی!!‘‘ یا بقول کامی شاہ ؎ ’’جھیلوں جیسی آنکھوں والی… تم بےحد گہری لگتی ہو… موجِ بدن میں رنگ ہیں اتنے… لگتا ہے، رنگوں سے بنتی ہو… پھول ہوئے ہیں ایسے روشن… جیسے اُن میں تم ہنستی ہو… جنگل ہیں اور باغ ہیں مجھ میں… تم اُن سے ملتی جُلتی ہو… یوں تو بشرزادی ہو لیکن… خُوشبو جیسی کیوں لگتی ہو… اکثر سوچتا رہتا ہوں مَیں… خلوت میں تم کیا کرتی ہو… وہ قریہ آباد ہمیشہ… جس قریے میں تم رہتی ہو۔‘‘ تو اِن ہی احساسات و خیالات کے مصداق ہماری آج کی بزم کی مہمان، ہے تو بشرزادی، لیکن اُس پر ’’رنگ و خوشبو‘‘ ہی کا گماں ہورہا ہے۔ اور پھر پہننا اوڑھنا بھی دیکھیے، جیسے پوری دھرتی(بزم) ’’جشنِ بہاراں‘‘ کا منظر پیش کررہی ہو۔
ذرا ملاحظہ فرمائیے،’’میچنگ سیپریٹس‘‘ اسٹائل میں ڈارک پِیچ رنگ پھول دار پرنٹ سے مزیّن ٹراؤزر شرٹ ہے، تو سفید بیس پر نیلے رنگ کی پھول پتیوں کا پرنٹ بھی بہت حسین سا تاثر دے رہا ہے۔ ایک اور انداز میں نارنجی سے رنگ پر رنگا رنگ گل بوٹوں کا پرنٹ ہے، تو گہرے کاسنی سے رنگ میں گتھواں سے پرنٹ کا بھی جواب نہیں۔ ہلکے آسمانی رنگ زمین پر نارنجی، سُرمئی کلیوں، پھولوں کا غلبہ ہے، تو آف وائٹ بیس پر خوب رنگ برنگ باغیچے کا سا منظر تو جیسے سارے ہی پرنٹس، رنگ و انداز پر حاوی معلوم ہو رہاہے۔
اب ایک توحُسنِ نوخیز، اُس پر سادگی میں بھی ایسی پُرکاری، تو پھر بہ اندازِ خاور احمد یہ کہنا سُننا تو بنتا ہی ہے۔ ؎ ایسا کِھلا وہ پُھول سا چہرہ، پھیلی سارے گھر خُوشبو… خط کو چُھپا کر پڑھنے والی، راز چُھپانا بھول گئی…کلیوں نے ہر بھونرے، تتلی سے پوچھا ہے اُس کا نام… بادِ صبا جس پھول کے گھر سے لوٹ کے آنا بھول گئی… اپنے پرانے خط لینے وہ آئی تھی، مِرے کمرے میں… میز پہ دو تصویریں دیکھیں، خط لے جانا بھول گئی… ساجن کی یادیں بھی خاور کن لمحوں میں آجاتی ہیں… گوری آٹا گوندھ رہی تھی، نمک ملانا بھول گئی۔