تحریر: نرجس ملک
ماڈل: عاشی خان
ملبوسات: Sab textile by Farrukh Ali
آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر
کوآرڈی نیشن: عمران ملک
عکّاسی: ایم۔ کاشف
لے آؤٹ : نوید رشید
ماہِ صیام کی افطار پارٹیاں، عیدالفطر کی تیاری، عید ایّام میں ہر روز اِک نیا جوڑا، خُوب بناؤ سنگھار، عید کی دعوتیں، ضیافتیں، عید ملن پارٹیاں، پھرعید کے فوری بعد منگنی، شادی کی کچھ تقریبات… سچ کہیں تو ہر روز سولہ سنگھار کر کر کے بھی طبیعت اوب سی جاتی ہے، اُس پر موسمِ گرما بھی گویا ماہِ رمضان ختم ہونے ہی کا منتظر تھا۔ عید کے تیسرے روز سے گرمی نے جو آنکھیں دکھانی شروع کی ہیں، تو اب تو جیسے ماتھے ہی پر رکھ لی ہیں۔
ٹھنڈی ٹھار صُبحیں، سُرمگیں شامیں، یخ بستہ راتیں لگ بھگ سال بھر کے رخصتی پہ روانہ ہوئیں اور تیز چلچلاتی دھوپ سے دہکتی دوپہریں، اونگھتی، کسمساتی طویل سہہ پہریں تا دیر ٹھہرنے کے ارادے سے قدم رنجہ فرماچُکی ہیں کہ اب موسمِ گرما ماہِ فروری سے جو ڈول ڈالنا شروع کرتا ہے، تو یوں کہیے، نومبر کے اختتام تک کنویں سے پانی کھینچے ہی چلا جاتا ہے۔
سردی کی تو باقاعدہ ڈُھنڈیا مچتی ہے، تو وہ ’’نیک بی بی‘‘ ذرا سا گھونگھٹ سرکانے پر آمادہ ہوتی ہے، جب کہ گرمی توجیسے پیر پسارنے کو پَر تولتی پِھرتی ہے۔ اور… اب بی گرمی اپنی آمد کا باقاعدہ اعلان فرما چُکی ہیں۔ سو، ہم نے بھی ’’اسٹائل‘‘ بزم کے رنگ و انداز یک سر تبدیل کرتے ہوئے اِسی موسم و ماحول ہی سے ہم آہنگ کر ڈالے ہیں۔ وہ کیا ہے کہ انسان موسم، رُتیں بدلنے پر تو قادر نہیں، البتہ رُتوں سے مطابقت و موزونیت ضرور اختیار کی جاسکتی ہے۔
یوں کہنے کو تو اِن دنوں بہار بھی جوبن پر ہے۔ باغ باغیچے کلیوں، پھولوں، سبزے سے لدے پھندے سے ہیں، مگر ساتھ ساتھ گرمی کی دستک بلکہ باقاعدہ دھرنے نے کچھ ایسی مَت مار دی ہے کہ بقول اعزاز احمد آذر ؎ درختِ جاں پر عذاب رُت تھی، نہ برگ جاگے، نہ پھول آئے… بہار وادی سے جتنے پنچھی اِدھر کو آئے، ملول آئے… نشاطِ منزل نہیں، تو اُن کو کوئی سا اجرِ سفر ہی دے دو… وہ رہ نوردِ رہِ جُنوں جو پہن کے راہوں کی دھول آئے… وہ ساری خوشیاں، جو اُس نے چاہیں، اُٹھا کے جھولی میں اپنی رکھ لیں… ہمارے حصّے میں عذر آئے، جواز آئے، اصول آئے… وفا کی نگری لُٹی، تو اُس کے اثاثوں کا بھی حساب ٹھہرا… کسی کے حصّے میں زخم آئے، کسی کے حصّے میں پھول آئے… بنامِ فصلِ بہار آذر، زرد پتّے ہی معتبر تھے..... جو ہنس کے رزقِ خزاں ہوئے، جو سبز شاخوں پہ جھول آئے۔ یہ خُوب صُورت غزل تو بس یوں ہی برسبیلِ تذکرہ درمیان آگئی، اصل موضوعِ گفتگو تو یک دَم بدلتا موسم اور موسم سے عین ہم آمیز ہمارے یہ رُوپ سروپ، رنگ و انداز ہیں۔
وہ کسی نے کہا تھا ناں کہ ’’گھر وہ واحد جگہ ہوتی ہے، جہاں ہم اپنے سو فی صد خالص پن، اپنے قطعاً اصل رنگ و رُوپ کے ساتھ، ہر طرح کی آرائش و زیبائش، لیپا پوتی کے بغیر بھی نہ صرف قابلِ قبول بلکہ بہت حد تک حسین و جمیل بھی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ تو آج ہماری محفلِ رنگ و بُو کچھ ایسے ہی جلووں، اداؤں سے آراستہ و پیراستہ ہےکہ جو نہ صرف گھر کے سچّے و سُچّے ماحول سے خُوب لگّا کھا رہے ہیں، بلکہ سادگی و عُمدگی کا پَرتوبھی ہیں۔ کاٹن، لان کے یہ ہلکے پُھلکے سے پہناوے گرمی کی حدّت و شدّت سے مقابلے کا آسان ترین نسخہ تو ہیں ہی، ساتھ اسٹائل اور جدّت و نُدرت کانمونہ بھی ہیں۔ جیسا کہ آج کل ’’میچنگ سیپریٹس‘‘ فیشن میں بے حد اِن ہیں، تو ہمارے منتخب کردہ پانچوں پہناوے مختلف رنگ ٹُو پِیس ڈریسز ہی کا انگ لیے ہوئے ہیں۔
چھوٹے چھوٹے پرنٹس سے مزیّن پیپلم اور کُرتی اسٹائل شرٹس کے ساتھ اسٹریٹ ٹراؤزرز کی ہم آمیزی بہت ہی بھلی معلوم ہو رہی ہے۔ بیج رنگ کا پہناوا حسین لُک دے رہا ہے، تو لیمن گرین رنگ کے لباس کی جاذبیت بھی کمال ہے۔ رائل بلیو رنگ کے پولکا ڈاٹس سے آراستہ پہناوے کا اندازغضب ہے، تو کاہی سبز کُرتے اسٹائل کا بھی جواب نہیں۔ اور لائٹ اسکن رنگ بیس پر نیلے، نارنجی پھول دار پرنٹ سے مرصّع ٹراؤزر، کُرتے کے حسنِ دلآویز کے تو کیا ہی کہنے۔
اب اِن سادہ سے ڈھیلے ڈھالے، بہت ہی آرام دہ اور موسم و ماحول سے ہم مطابق پہناووں کو اپنا کے جب جسم و جاں کی راحت و طراوت کا سامان کریں گی، تو آئینہ دیکھتے نگاہیں خُود ہی پہ نثار، فدا ہوئے جائیں گی۔ دل تو کیا، رُوح بھی گُنگنا اُٹھے گی۔ ؎ تُو غزل بن کے اُتر، بات مکمل ہو جائے… منتظر دل کی مناجات مکمل ہو جائے… عُمر بھر ملتے رہے پھر بھی نہ ملنے پائے… اس طرح مِل کہ ملاقات مکمل ہو جائے… دن میں بکھرا ہوں بہت، رات سمیٹے گی مجھے… تُو بھی آ جا تو مِری ذات مکمل ہو جائے… مَیں سراپا ہوں دُعا، تُو مِرا مقصودِ دعا… بات یوں کر کہ مِری بات مکمل ہو جائے… ابر آنکھوں سے اُٹھے ہیں، ترا دامن مل جائے… حُکم ہو تیرا تو برسات مکمل ہو جائے… تجھ کو پائے تو وحیدؔ اپنے خدا کو پا لے… کاوشِ معرفتِ ذات مکمل ہو جائے۔