دنیا بھر میں مہنگائی میں عمومی کمی اور ملک میں مہنگائی کی شرح کے پچھلے کئی عشروں کے مقابلے میں کم ترین سطح پر آجانے کے باوجود روز مرہ ضرورت کی اشیاء میں اس نسبت سے کوئی نمایاں کمی کیوں واقع نہیں ہورہی؟عام آدمی اس معمے کو حل کرنے سے قاصر تھا ، تاہم وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے گزشتہ روز ایوان صنعت و تجارت لاہور میں اس معاملے کی حقیقت بے نقاب کردی۔ ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی میں کمی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ رہے تواس کا کوئی فائدہ نہیں۔عالمی منڈی میں کمی کے باوجود یہاں قیمتیں اوپر جارہی ہیں کیونکہ مڈل مین من مانی کر رہے ہیں۔اس مسئلے کے حل کیلئے انہوں نے صوبائی حکومتوں اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے مؤثر کردار ادا کیے جانے پر زور دیا۔ وزیر خزانہ نے بالکل درست کہا کہ حکومت کااصل مقصد عام آدمی کو فائدہ پہنچانا ہے ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ مہنگائی میں کمی کے ثمرات کے عوام کے حق میں عملی نتائج رونما ہوں اور ہر سطح کی انتظامیہ اور حکومت اس سلسلے میں اپنی ذمے داری پوری کرے ۔ طلب اور رسد میں توازن اور پیداواری اداروں کے درمیان صحت مند مسابقت کے معاشی اصول قیمتوں پر کنٹرول کا خود کار نظام تشکیل دیتے ہیں لیکن کاروباری عناصر ملی بھگت سے ذخیرہ اندوزی کرکے مصنوعی قلت کے ذریعے قیمتیں بڑھادیتے ہیں۔ چینی کی قیمتوں کے معاملے میں ہمارے ہاں کم و بیش ہر سال ہی یہی کچھ ہوتا ہے اور بھاری اضافے کے بعد قیمت میں معمولی کمی کرکے مستقل ناجائز منافع خوری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کارٹیلز کے قیام اور ذخیرہ اندوزی کی روک تھام کیلئے جدید سائنٹفک ذرائع سے کام لینا اور اس کیلئے مطلوبہ منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ وزیر خزانہ نے انکم ٹیکس نظام کے نہایت پیچیدہ ہونے کا اعتراف بھی کیا جو یقینی طور پر ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ شکنی کا سبب بنتا ہے۔یہ احساس بھی نیا نہیں، عشروں سے ٹیکس نظام کو سادہ اور سہل بنائے جانے کی باتیں ہورہی ہیں لیکن عملی نتائج کا فقدان ہے ۔ تاہم اس دور میںمعاشی اصلاحات کا سلسلہ ملک میں جاری ہے اس لیے انکم ٹیکس کے نظام میں بھی تمام ضروری اصلاحات جلدازجلد کرلی جانی چاہئیں ۔ٹیکس نظام کی پیچیدگی ہی ٹیکس دینے والوں کیلئے چوری اور سرکاری اہلکاروں کیلئے رشوت خوری کے مواقع پیدا کرتی ہے ۔ جب تک ٹیکس چوری اور رشوت خوری کے مواقع موجود رہیں گے، یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ دنیا بھر میں اسی بناء پر ان معاملات میں بیورو کریسی کا عمل دخل ختم کرکے پورے نظام کو خودکار اور ڈیجیٹائز کیا جارہا ہے ، ہمارے ملک میں بھی یہ مسئلہ اسی طرح حل ہوسکتا ہے۔ ٹیکس نظام کو آسان اور سرکاری اہلکاروں کی مداخلت سے پاک کرکے معاشی عمل میں نجی شعبے کی سرگرم شرکت کو تیزی سے بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انکم ٹیکس دینے والوں کو دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی طرح قابل لحاظ مراعات اور بالواسطہ ٹیکسوں کے معاملے میں چھوٹ کا دیا جانا بھی ضروری ہے۔ایک شخص سے اس کی آمدنی پر پورا ٹیکس وصول کرنے کے بعد ٹیکس نہ دینے والوں کی طرح تمام بالواسطہ ٹیکس بھی وصول کیے جانے کا کوئی جواز نہیں۔ تنخواہ دار طبقے کو آسان ہدف سمجھ کر انکم ٹیکس کا بیشتر بوجھ اس پر ڈال دینے کا سلسلہ بھی اب بند ہونا چاہیے اور آئندہ بجٹ میں اس حوالے سے کی جانے والی یقین دہانیوں کو عملی شکل دی جانی چاہیے۔ صحت و تعلیم پر خرچ کے ضمن میں وزیر خزانہ کا یہ انکشاف حیرت انگیز ہے کہ اس ضمن میں مسلسل دعووں کے باوجود عملی صورت حال مختلف ہے کیونکہ ایک کھرب روپیہ کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے، یہ سلسلہ بند ہوگا تو صحت و تعلیم پر خرچ کیلئے وسائل میسر آئیں گے۔موجودہ حکومت کی معاشی بحالی کی کوششیں بلاشبہ قابل قدر ہیں لیکن جو نقائص موجود ہیں انہیںدور کیا جانا چاہئے تاکہ حکومتی اقدامات کے بھرپور نتائج سامنے آئیں۔