• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوفیوں، فقیروں اور سادھو،سنتوں کو سکھایا تو یہی جاتا ہے کہ کتا بھونکے یاکوئی گالیاں بکے آپ نے سر جھکا کر گزر جانا ہے،غصے کا جواب غصے سے نہیں پیار سے دینا ہے مگر ظاہر ہے کہ ہر کوئی سادھو،سنت یا صوفی تو نہیں کئی عاشق بھی محبوب کی سختیوں کا جواب یہ کہہ کر دیتے ہیں۔

ساڈا دل لوہے دا تے نئیں

تضادستان کے سیاسی مناقشے کا آغاز بھی اس مفروضے سے ہوا کہ عمل کا ردعمل نہیں ہوتا، محبوب کی گالیاں بھی عاشق کیلئے پھولوں کی طرح ہوتی ہیں۔ مخالف پر جتنے بھی الزام لگا لیں وہ جواب میں کچھ بھی نہیں کر سکے گا۔ اپنے سے اختلاف کرنے والوں پر بہتان باندھیں اسکے سامنے اونچا بولیں، نیٹ اور فیس بک اس کیخلاف الزامات، دشنام اور برے ناموں سے بھر دیں وہ کوئی جواب دے ہی نہیں سکے گا۔ مگر حقیقت میں ایسا نہیں، اسلام سلامتی،رحمت اور امن کا دین ہے مگر اسلام دشمن ابو جہل اور ابو لہب کے لقب سے پکارے گئے ۔ دنیا کی تاریخ میں لڑائی، دشمنی اور جنگ صرف معافی اور مصالحت سے ختم ہوتی ہے۔ ہمارے انصافی بھائیوں نے بھی اپنے سیاسی مخالفوں حتیٰ کہ ان سے اصولی اختلاف کرنے والوں کی وہ درگت بنائی کہ وہ مذاق بن گئے۔ انصافی بھائی بھول گئے کہ کمزور سے کمزور شخص بھی اس کا ردعمل دے گا اور وہ ردعمل گالیوں، دشنام اور الزام جیسا نہیں ہوگا بلکہ ایسا ہوگا کہ وہ انصافیوں کیلئے خیر خواہی کے جذبے کوتیاگ کر انہیں اپنے بدترین دشمن قرار دیں گے اور پھر ان کا قلع قمع بھی کریں گے۔

یاد کریں کہ جب قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف انصافی حکومت نے ریفرنس فائل کیا تو کیا کیا الزامات لگائے گئے۔ عمران خان حکومت سے نکلے تو خود اعتراف کیا یہ ریفرنس داخل کرنا غلط تھا مگر پھر قاضی صاحب سے ناراضی دوبارہ ہوگئی ججوں کی اندرونی سیاست میں آ کر کسی کو زیرو بنایا تو کسی کو ہیرو اور آج صورتحال یہ ہے کہ کوئی جج اس پوزیشن میں نہیں رہا کہ وہ تحریک انصاف کو ریلیف دے سکے، وہ جج جو دلیری سے انصاف فراہم کرتے تھےاور ان میں سے چند عمران خان کو وی آئی پی کا پروٹوکول دیتے تھے اور بعض اپنے دلوں میں شاید اسے اپنا ہیرو گردانتے تھےان کے دائرہ کار کو بھی تحریک انصاف نے محدودکر دیا ہے۔ اب ہر ایک کا دل لوہے کا ہو چکا اور وہ جن کا دل انصافیوں کیلئے موم تھا وہ یا تو اپنا سب کچھ گنوا چکے یا نشانے پر ہیں۔ تحریک انصاف کو ججوں کی سیاست میں حصہ لینا اس قدر مہنگا پڑا ہے کہ ان کیلئے انصاف کے دروازے ہی بند ہوگئےہیں، کاش انصافی ججوں کو دشنام، گالی اور الزامات سے گریز کرتے تو آج یہ صورتحال ہر گز نہ ہوتی۔

ملک کی دو بڑی اور پرانی سیاسی جماعتوں نے وقت اور تجربے سے یہ سبق سیکھ لیا ہے کہ اداروں کی سیاست میں دخل اندازی کوئلے کی دلالی میں منہ کالا کرنے کے مترادف ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے ججوں کی سیاست میں نہ دخل اندازی کی اور نہ اس کو کوئی بڑی سزا ملی۔ ماضی میں ن لیگ نے ججوں کی سیاست کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے اپنے بنائے ہوئے جج جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس کھوسہ ہی ان کی جڑوں میں بیٹھ گئے۔ تحریک انصاف کے جذباتی بھائی کب یہ سبق سیکھیں گے۔

اسی روشنی میں مقتدرہ اور جذباتی انصافیوں کے رویے دیکھ لیں۔ جنرل باجوہ کو یہ اعزاز حاصل ہے یاپھران کی شخصیت پریہ داغ ہے کہ انہوں نے عمران خان اور میڈیا پراپیگنڈے کیلئے اپنی پسند کے لوگوں کی راہ ہموار کی، عمران خان کوتخت پربٹھایا، جنرل باجوہ اور انصافی دونوں اس بات پر پھولے نہیں سماتے تھے کہ ہم ایک صفحے پر ہیں۔ جب اس بے خبر اور عاجز نے خبروں کی بنیاد پر نہیں تجزئیے کی بنیادپر یہ لکھا کہ ’’یہ کمپنی نہیں چلے گی‘‘ توتحریک انصاف کے جانبازپنجے جھاڑ کر پیچھے پڑ گئے اور اس وقت کی مقتدرہ کے ایک جنرل کو بھی یہ گستاخی پسند نہ آئی اور مجھے مجبور کیا گیا کہ کتاب شائع کرنی ہے تو ٹائٹل بدلیں۔ کتابیں مارکیٹ سے اٹھا لی گئیں مجھے جھٹلایا گیا مگر نتیجہ کیا نکلا وہی ڈھاک کے تین پات۔ یہ کمپنی نہ چل سکی اور آج تک یہ کمپنی دوبارہ دور دور تک کہیں چلتی بھی نظر نہیں آتی۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی غلطی یہ تھی کہ اس نے مقتدرہ کی اندرونی سیاست میں دخل اندازی شروع کردی جنرل فیض کی بے جا حمایت قطعاً غلط تھی اس زمانے میں کور کمانڈرز کی میٹنگ میںتقریباً سارے شرکاء جنرل فیض اور ان کے اقدامات کی مخالفت کیا کرتے تھے انصافی بادِ مخالف کو نہ سمجھ سکے اور پھر وہ ایک صفحہ پھٹ گیا، یاریاں ٹوٹ گئیں تڑک کرکے۔ اسی ادارے میں دخل اندازی جنرل فیض کی بے جا حمایت تک محدود نہیں رہی وہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لگوانے پر پھر بھی مصر رہےاورجنرل عاصم منیر کو آرمی چیف بنانے سے روکنے کیلئے دھرنے کا اعلان کردیا، یہ بھول گئے کہ نواز شریف، راحیل شریف اور جنرل باجوہ کو بڑی پسندیدگی اور سوچ سمجھ کر لائے تھے مگر انہوں نے ادارے کا ساتھ دیا نواز شریف کا نہیں۔

مقتدرہ انصافیوں کی ماضی کی محبوبہ سہی مگر وہ بھی ان کے ستم، دشنام اور گالیاں کیوں سنے۔ وہ محبوبہ تو ان پر مہربان رہی ، انہیںلیلائے اقتدار کے مزے چکھائے، جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جذباتی انصافیوں نے خود ہی یک طرفہ جنگ کا آغاز کردیا حالانکہ وہ جنرل باجوہ کے بعد ایک نیا سٹارٹ لیتے تو شاید پرانا معاشقہ بحال ہو جاتا۔ مگر جب مقتدرہ نے انصافیوں اور یوتھیوں کو حدیں عبور کرتا دیکھا تو انہوںنے بھی نرم دلی سے فولادی دل کی طرف سفر شروع کردیا۔

یہی رویہ میڈیا کے ساتھ اختیار کیا ۔ دو سابق جرنیلوں کی رہنمائی میں میڈیا کوٹارگٹ بنانے کاسلسلہ شروع کیا کبھی دھمکی اورکبھی خوشامد۔ نہ ماننے پر نوکریوں سے فراغت اور حد یہ کی کہ سب سے بڑے میڈیا گروپ کے سربراہ کو جیل بھیج کر یہ تاثر دینا شروع کردیا کہ ہم اس مسئلے میں نہیں پڑیں گے، بڑے بڑے شرفا کو لفافی قرار دے کر سمجھا کہ ہم انہیں پراپیگنڈے سے ہی دفن کردیں گے۔ فرعونوں سے موسیٰ کبھی مرا ہے۔ وہی ہوا میڈیا نے نئی انگڑائی لی اور لفافی ڈٹ گئے اور اصلی لفافی جو انصافی پروردہ تھے وہ سب ایک ایک کرکے ملک سے فرار ہوگئے۔ سب صحافی فقیر اور سادھو نہیں کہ اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دیں۔ کئی ایک کے دل لوہے کے بھی ہیں وہ محبوب کی ناز برداری نہیں اس کی جواب داری کے قائل ہیں۔

بوڑھے شیر کی لندن آمد پر مظاہرے سے پی ٹی آئی اور عمران کو فائدہ ہوگا یا نقصان؟ کیا بوڑھا شیر نرم دل ہوگا یا سخت دل؟ ان کا لوہے کا دل عمران پر مہربان ہوگایا مزیدنامہربان؟ کاش جذباتی انصافی سوچیں، سیاست اور اقتدار میں کامیابی دوست بنانے سے ہوتی ہے دشمن بڑھانے اور نئے بنانے سے راستے بند ہوتے ہیں۔ کاش کوئی تو سوچے!!!

تازہ ترین