چند روز قبل ایک تہلکہ خیز خبر نشر ہوئی۔ سائنسدانوں نے ڈی این اے، کلوننگ اور جین ایڈیٹنگ پہ کام کرتے ہوئےڈائر بھیڑیے کے تین بچے پیدا کیے۔ ڈائر بھیڑیا آج سے دس ہزار سال پہلے ناپید ہوگیا تھا۔ یہ موجودہ بھیڑیوں کی نسبت طاقت اور قد میں کافی بڑا تھا۔ کچھ ماہرین کی رائے میں یہ بچے دیکھنے میں خواہ ڈائر نسل کے لگیں، درحقیقت تبدیل شدہ گرے وولف ہی ہیں۔ سائنسدان طویل عرصے سے اس کوشش میں ہیں کہ ناپید ہو جانے والے جانداروں کو دوبارہ پیدا کیا جائے۔ آپ نے ایسی فکشن موویز دیکھی ہوں گی ،جن میں ڈائنا سار دوبارہ پیدا ہو جاتے ہیں۔ سمتھ سونین میگزین کے مطابق مئی 2015ء میں سائنسدانوں نے مرغیوں کے ایمبریو میں جب چونچ بنانے والے جینز کو سائلنٹ کیا تو جو چوزے پیدا ہوئے، ان کی شکل ڈائنا سار جیسی تھی۔ چونچ کی بجائے وہ جبڑوں کے حامل تھے۔ انہیں ’’ڈائنو چک‘‘ کا نام دیا گیا۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر وہ انسان دوبارہ پیدا کر دیے جائیں، جو ہزاروں لاکھوں سال پہلے ناپید ہو چکے تو کیا ہو گا؟ ان میں عقل باقی سب جانداروں سے زیادہ تھی۔
کیا اس دنیا میں لاکھوں سال پہلے ہم سے مختلف قسم کے انسان گزر چکے ہیں؟ وہ جو دو ٹانگوں پہ سیدھے کھڑے ہوا کرتے اور باقی جانوروں سے ذہنی طور پر برتر تھے۔ آج کی دنیا میں بے پناہ علوم موجود ہیں۔ ایک ڈاکٹر پڑھا لکھا ہے مگر انجینئرنگ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ انجینئر میڈیکل سائنس سے مکمل طور پر لاعلم ہے۔ فرض کریں، ایک سائنسدان ایک ایسا پمپ بنا لینے کا دعویٰ کرتا ہے، جو دل کی طرح کئی عشرے خون سپلائی کر سکے۔ ظاہر ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے طبی ماہرین کے سامنے اسے مشاہدے کیلئے اپنا پمپ پیش کرنا ہو گا۔ کسی مریض پہ تجربہ کرنا ہوگا۔ ہوائی دعویٰ کون مانے گا۔ فاسلز کا معاملہ بھی یہی ہے۔
ایک مکینک کسی طرح ایک گاڑی کا پرزہ کسی دوسری میں فٹ کر کے باقی مکینک حضرات کو دھوکا دے سکتا ہے؟ ابراہم لنکن سے ایک قول منسوب کیا جاتا ہے :آپ سب لوگوں کو کچھ وقت کیلئے بے وقوف بنا سکتے ہیں، کچھ لوگوں کو مستقل دھوکہ دے سکتے ہیں لیکن تمام لوگوں کو مستقل طور پر بے وقوف بنانا ممکن نہیں (ظاہر ہے، وہ بھی دماغ رکھتے ہیں)۔
کالم نگار یا صحافی سائنسدان نہیں ہوتے لیکن وہ کسی بھی شعبے کے غیر متنازعہ ماہرین کی مجموعی رائے جاننے کی اہلیت ضرور رکھتے ہیں۔ فاسلز اور ارتقا کے علوم ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ انسان کوئی ایک نہیں تھا۔ پچاس سے ستر لاکھ سال پہلے دو ٹانگوں پہ چلنے والے فاسلز نمودار ہوئے۔ پچھلے کئی ملین سال سے دو ٹانگوں پہ چلنے والوں کا دماغ بڑھ رہا تھا۔ وہ چھ سو سی سی سے بڑھتے بڑھتے چودہ سو سی سی تک آن پہنچا۔
اسمتھ سونین میگزین تصدیق کرتا ہے کہ تین لاکھ سال پہلے ہومو سیپین یعنی موجودہ انسان جب فاسلز کے ریکارڈ پر نمودار ہوا تو ا س وقت 9اور قسموں کے انسان بھی زندہ تھے۔ فرق ان میںایسے ہی تھے ، جیسے کہ شیر، ٹائیگر، جیگوار، برفانی تیندوے اور مختلف قسموں کی چھوٹی اور بڑی بلیوں میں پائے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے سے مشابہہ مگر مختلف۔ یا آپ کہہ لیں کہ چمپنزی، گوریلے اور بونوبو میں جس طرح کے فرق پائے جاتے ہیں۔ ٹائیگر اورشیر آپس میں اولاد بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ چمپنزی اور بونوبو بھی آپس میں اولاد پیدا کر سکتے ہیں۔ مختلف ملتے جلتے جانوروں میں آج بھی آپس میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت اسی لیے پائی جاتی ہے کہ لاکھوں سال پہلے ان کا جدـامجد ایک ہی تھا۔ زمین پر مختلف جانور ایک دوسرے سے ارتقا کے نتیجے میں بنے اور یہ ارتقا کم از کم لاکھوں سال پر محیط ہوتا ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس زمین پہ جتنی بھی زندگی ہے ، سب ایک خلیے سے شروع ہوئی اور ایک دوسرے سے وجود میں آئی۔
ماہرین کو اس بات پر بھی کوئی شک نہیں کہ ہومو سیپین یعنی موجودہ انسان کی نسبت نینڈرتھلز کا دماغ بڑا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ ہم سے زیادہ ذہین یا ہم سے زیادہ مہم جو تھا ایسااگر ہوتا تودنیا میں اس وقت سیپینز کی بجائے نینڈرتھل آباد ہوتے۔ ایک اور چیز بڑی اہم ہے کہ اگلی نسل کو صحت مند جینز منتقل کرنے کیلئے موزوں یہ ہوتاہے کہ شادیاں خاندان سے باہر کی جائیں۔ ایک نوجوان سائنسدان ضیغم قدیر اور اسپیشل بچوں کے استاد خطیب احمد اس حوالے سے لکھتے رہتے ہیں کہ مستقل کزن میرج کی وجہ سے بہت سے بچے ا سپیشل پیدا ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے بھی کہ آج بہت سی عورتیں اس عمر میں بچے پیدا کر رہی ہیں، جس عمر میں یہ صلاحیت ختم ہونے کے قریب ہوتی ہے۔بی بی سی کے مطابق برطانیہ کی پاکستانی کمیونٹی میں مسلسل کزن میرج کی وجہ سے کچھ جینیاتی بیماریوں کی شرح دوسری کمیونٹیز سے تیرہ گنا زیادہ ہے۔ پچپن فیصد برطانوی پاکستانی اپنے خاندان میں شادی کرتے ہیں۔ اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ کزن میرج پہ پابندی لگا دی جائے۔
اسی طرح سے اس بات کا بھی ثبوت آج موجود ہے کہ ماضی میں دو ٹانگوں والی کئی اسپیشیز نے ایک دوسرےسے اولاد پیدا کی۔ شاید اس سے اگلی نسل میں زیادہ بہتر خصوصیات پیدا ہو سکتی ہیں۔ ارتقا کے بارے میں پڑھتے ہوئے لوگ خوف کھاتے ہیں۔ خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مختصر الفاظ میں، خدا نے زمین پہ زندگی کو ریپٹائلز، میملز، پرائمیٹس اور گریٹ ایپس کی صورت میں ایک دوسرے سے ارتقا کیا۔ گریٹ ایپس سب سے آخر میں ارتقا پذیر ہوئے۔ گریٹ ایپس میں سے سیپین یعنی موجودہ انسان سب سے آخر میں پیدا ہوئے۔ میں اس کو اتفاق نہیں مانتا کہ سب سے آخر میں جو گریٹ ایپ پیدا ہوا، اس پر شریعت نازل ہوئی یا وہ خدا کے وجود پر بحث کرنے لگا، جو اس سے پہلے کبھی کسی نے نہ کی تھی ۔وہ سب سے آخر میں جان بوجھ کر پیدا کیا گیا تاکہ وہ ذہنی طور پر سب سے زیادہ بہتر ہو۔ خواہ اس ذہنی بہتری کو حاصل کرنے کیلئے ہمیں جسمانی طاقت کی قربانی دینا پڑے۔ قصہ مختصر یہ کہ انسان پہ شریعت اور پیغمبر اتارے، باقیوں میں نہیں اتارے۔ خون بہانے کی سرشت اس میں کئی ملین سال سے ارتقا کر رہی تھی مگر عقل بھی اس پر نازل کی جا چکی تھی۔ اب دیکھنا یہ تھا کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے۔