(گزشتہ سے پیوستہ)
اس ناچیز نے انہی دنوں نہ صرف سابق امیر جماعت میاں طفیل محمد سے قاضی حسین احمد کی شکایات کرناشروع کر دیں بلکہ قاضی صاحب کو خط لکھا کہ آپ یہ دورخی پالیسی کیوں اپنا رہے ہیں؟ ایک طرف امریکی امداد اور تعاون سے پوری طرح مستفید ہو رہے ہیں دوسری طرف امریکا کے خلاف منافرت پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اس پر انکا جوابی خط یہ تھا کہ ’’آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟ میرے بیانات کا امریکیوں پر کون سا اثر ہوتا ہے اور یہ تو اردو یا پشتو زبان میں ہوتے ہیں جنکی امریکیوں کو سمجھ ہی نہیں آتی اور یہ بالعموم ان تک پہنچ ہی نہیں پاتے‘‘ یوں محسوس ہوتا کہ ایشو محض ان مذہبی لوگوں کا نہیں، اس کے ڈانڈے کہیں اوربھی ملتے ہیں۔ مسئلہ امریکی ذمہ داران تک پہنچنے کا بھی نہیں تھا ایشو یہ تھا اور ہے کہ امریکی سفارت کار بالعموم ایسی بیان بازی کو کوئی خاص وقعت نہیں دیتے یا پھر آزادیء اظہار کے معنوں میں لیتے ہوئے نظر انداز کر دیتے ہیں سو ٹھیک یہی وتیرہ یہاں اپنایا گیا۔
اس امر میں کوئی اشتباہ، الجھاؤ یا دوسری رائے نہیں کہ سوویت جارحیت کے خلاف صدر جمی کارٹر نے تاریخی کردارادا کرتے ہوئے فوری طور پر جو پالیسی اپنائی اور جو اقدامات کیے بلاشبہ وہ لازمی و ناگزیر تھے، یہ اقدامات نہ صرف امریکی بلکہ انسانی مفاد میں تھے لیکن انہی کی انتظامیہ نے اپنے ان جہادیوں کے اندر خانے پھیلنے والے اپنی ہی یعنی ریاست ہائے متحدہ امریکا کے خلاف منافرت پھیلانے کو کیوں قابل توجہ نہ سمجھا؟ کیا یہ سی آئی اےکی ذمہ داری نہیں تھی کہ سوویت انخلاء یا تحلیل سےآگے تک دیکھتے ہوئے اس حوالے سے کارآمد مثبت حکمت عملی اپناتی اور مابعد کا بھی قابل عمل اہتمام کیا جاتا، اس کیلئے ذہن سازی یا برین واشنگ کی جاتی۔ جہادی جذبات تو گویا ایک دو دھاری تلوار کی طرح ہوتے ہیں اگر آپ انہیں کسی مثبت ڈگر پر نہیں لگائیں گے تو عین ممکن ہے کہ یہ خود آپ پر ہی چڑھائی کر دیں۔ اگر اس نوع کی باریکیوں پر توجہ دی گئی ہوتی اور ہماری اسٹیبلشمنٹ اس حوالے سے حکمت سے کام لیتی تو القاعدہ یوں شتر بے مہار ہوتی نہ نائن الیون ہوتا اور نہ طالبان یوں بے لگام ہوتے کہ آپ پر ہی چڑھ دوڑیں۔ اس میں یقیناً پاکستان کی ناکامی تھی یا پھر منفی ترجیحات، سچائی تو یہ ہے کہ جس طرح امریکی اپنے تئیں یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ پاکستان، سعودی عرب، مصر اور جہادی فورسز کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں اسی طرح پاکستانی طاقتور یہ خیال کرتے تھے کہ انہوں نے امریکا کو اپنے مخصوص مقاصد کیلئے استعمال کیا ہے، اپنی جگہ دونوں ہی سچے تھے اختلافات کے باوجود جب مفادات میں اشتراک ہوتا ہے تو ایسی ہی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ بات چونکہ صدر جمی کارٹر کے حوالے سے ہو رہی ہے تو واضح رہے کہ اس ساری جدوجہد کا کریڈٹ بھی انہی کو جاتا ہے وہ سوویت یونین جو بشمول امریکا مغربی جمہوریتوں کیلئے ایک چیلنج بنی ہوئی تھی جس کی یلغار دنیا کے کونے کونے میں امریکا کے بالمقابل سرد جنگ کی صورت کھڑی تھی نظریہ جبر پر استوار وہ آمرانہ ریاست جسے صدر رونالڈ ریگن ’’شیطانی ریاست‘‘ کہتے نہیں تھکتے تھے، اس کے خاتمے کی بنیادیں استوار کرنے والے امریکی صدر جمی کارٹر ہی تھے۔ آرٹیکل کی طوالت کا امکان ہے ورنہ مڈل ایسٹ میں صدر جمی کارٹر نے اسرائیل اور عرب ریاستوں میں جنگوں کا خاتمہ کرنے کیلئے کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے لے کر امن اور بھائی چارے کی جو مضبوط بنیادیں استوار کیں آج کے دن تک اس پالیسی میں کسی ایک لفظ کا فرق نہیں آسکا۔ اسرائیلی ویوپوائنٹ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے پانامہ کینال کی طرح ملا ملایا وسیع صحرائے سینا اسرائیل سے چھین کر ھینگ لگے نہ پھٹکری کی طرح، مصر کو واپس لوٹا دیا، اور پھر بلاشبہ رد عمل کی قوتوں نے تب سے لے کر اب تک بہت توڑ پھوڑ اور تخریب کی ہے۔ جمی کارٹر سے قبل عرب ریاستوں اور اسرائیل کے مابین مسلسل کشیدگی رہتی تھی۔ جس پر مصری صدر انور سادات اور اسرائیلی پرائم منسٹر مناہم بیگن کے درمیان گفت و شنید کرواتے ہوئے جمی کارٹر نے امن کا جو کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کروایا یہ اسی کا ثمر ہے کہ مصر نے اتنے اتار چڑھاؤ آنے کے باوجود اسرائیل کی طرف ترچھی نظر سے نہیں دیکھا بلکہ بشمول اردن، شام اور لبنان کبھی اس نوع کی ریاستی جنگی صورتحال پیدا نہیں ہوئی۔ ایرانی پراکسی حزب اللہ کی کارروائیاں اپنی جگہ مگر بحیثیت ریاست لبنانی حکومت ایسی کسی بھی حرکت سے باز رہی۔ بشار الاسد بھی اپنے زوال تک کوئی بڑی کارروائی نہ کر سکے آج خود فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس غزہ کی کچھ ٹکڑیوں تک محدود ہو کر رہ گئی موجودہ تمام تر تشدد کے باوجود پی ایل او، الفتح یا ویسٹ بینک سے بھی ایسی کوئی قابل ذکر کارروائی نہیں ہو سکی۔ بعید نہیں کہ یہ مزاحمتیں بھی بالآخر بے بس ہو کر دم توڑ دیں یوں مڈل ایسٹ میں کھجور و زیتون کی امن و دوستی والی نئی کونپلیں پھوٹیں جہاں جمہوریت ہیومن رائٹس اور انسان دوستی و انسان نوازی کا بول بالا ہو۔ قصہ مختصر اس وقت مڈل ایسٹ میں صرف ایران ہی ہے جو رشیا یا چائنہ کے تعاون سے امریکا کے مقابل آ سکتا ہے۔(جاری ہے)