ہالینڈ کے ایک جریدے نے ملائیشیا کی ایک کمپنی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ملائیشیا میں ایک ایسی مشین ایجاد کی گئی ہے جو مسلمانوں کو پانی کے اسراف کے بغیر وضو کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوگی سبز رنگ سے مزین یہ مشین خود کارحساس آلات کی حامل ہے اس طرح پانی کے ضیاع کو روکنے میںمدد ملے گی۔ مشین کے موجد اے اے سی ای (AACE)نے ان مشینوں کی فروخت کیلئے افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے دولت مند ممالک پر انحصار کیا ہے یہ مشین جس کی قیمت تین سے چار ہزار ڈالر ہوگی آئندہ چھ ماہ میں مارکیٹ میں لائی جائے گی لوگوں کو پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کیلئے مختلف طریقے اور ایک نئی ترغیب دی جائے گی جو روایتی طریقہ کار کی بجائے ہائی ٹیک طریقے پر مبنی،ہوگی کمپنی کے صدر اینتھونی گومز نے پریس کو بتایا کہ روایتی طریقہ وضو میں بہت سا پانی ضائع ہوتا ہے۔ گومز نے کوالالمپور میں اس مشین کی لانچنگ کے وقت یہ تمام تفصیلات اخبار نویسوں کو بتائیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس آلہ یا مشین میں ریکارڈ شدہ قرآنی آیات کو ایک مخصوص بٹن دبا کر سنا بھی جا سکے گا مشین کی اونچائی لگ بھگ پانچ فٹ ہے اس سے وضو کرنے میں صرف 1.3لیٹر پانی خرچ ہوگا، زمانہ حج کے دوران لگ بھگ 20 لاکھ عازمین حج کے وضو کیلئے 50 ملین لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے جبکہ اس مشین کے استعمال سے یومیہ صرف 10 ملین لیٹر پانی صرف ہوگا ایسی صورت میں 40 ملین لیٹر پانی کی آسانی سے بچت ہو سکے گی۔ دبئی نے اپنے ایئر پورٹ کیلئے اس مشین کو خریدنے کا آرڈر دیا ہے۔ کمپنی کے صدر گومز نے بتایا کہ اس مشین کی تیاری میں دو سال کا عرصہ لگا تقریبا 50 لاکھ ڈالر خرچ آیا لیکن ہمارا تجربہ بے حد کامیاب رہا۔ ادھر اقوام متحدہ نے بے حد اہم وارننگ دی ہے کہ انسان کرۂ ارض کے وسائل کا بے دریغ اور بے دردی سے استعمال کر رہا ہے جس کو فوری طور پر روکا جانا چاہیے ورنہ بڑے پیمانے پر ایک عالمگیر تباہی و بربادی ہمارا انتظار کر رہی ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ دنیا میں پانی کے ذخیروں کو تباہ کن طریقے سے آلودہ کیا جا رہا ہے،دستیاب پانی فی الحال سالانہ 45 فیصد استعمال ہو رہا ہے اور اس میں سے دو تہائی زرعی مقاصد کیلئے زیر استعمال ہے سال 2026 میں یہ کھپت 70 فیصد ہو جائے گی جبکہ 4.5 بلین لوگ جو دنیا کی آبادی کا 45 فیصد حصہ ہوں گے وہ ایسے ملکوں کے باشندے ہونگے جن کی فی کس 50 لیٹر پانی کی بنیادی ضرورت بھی پوری نہ ہو سکے گی۔ آئندہ برس میں یعنی 2026 میں دنیا کی آبادی لگ بھگ 10 بلین ہو جائے گی چین اور جنوبی ایشیا (پاکستان بھارت بنگلہ دیش وغیرہ) میں زیر زمین پانی کی سطح ابھی سے ہر سال ایک میٹر کے لگ بھگ نیچے اترتی جا رہی ہے۔ آج بھی دنیا کے ایک ارب 20کروڑ افراد کو صاف پانی میسر نہیں ہے اور ترقی پذیر ممالک میں 95فیصد گندا پانی اور 70 فیصد صنعتی گندگی دریاؤں ،نہروں ،ندی نالوں اور کھالوں میں بہا دی جاتی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس صدی میں پانی تیل کی طرح قیمتی ایشیا میں شامل ہو جائے گا اور اگر ایسا ہوا تو سب سے زیادہ فائدہ آسٹریا کو ہوگا کہ یہ ملک آبی وسائل سے مالا مال ہے اور وہ سعودی عرب کے تیل کی طرح پانی سے مالا مال ہو جائے گا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر تین سیکنڈ میں ایک بچہ پانی کی مناسب سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے بیمار ہو کر مر جاتا ہے۔ قدرت کا بہترین مشروب صاف شفاف پانی ہےکہ پانی زندگی کو پروان چڑھاتا ہے، پانی صحت بدن کیلئے لازمی اور ضروری ہے۔ دوسری طرف پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کا سب سے اہم مسئلہ پینے کا صاف پانی ہے گندے پانی سے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے 20 برسوں میں اندازے سے کہیں زیادہ بیماریوں نے ترقی پذیر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ پانی کو زندگی اور جیون کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور بہت سے مقامات اور علاقوں میں اسے ’’امرت‘‘ اور ’’آب حیات‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔سائنس دانوں نے تشویش ظاہر کی ہے کہ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی کا طوفان اور پھیلی ہوئی آلودگی کے باعث پانی کیلئے جنگوں کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ جرمنی کے پروفیسر ولیم ہاگن نے کہا ہے کہ’’ہم تیل پر جنگیں لڑ چکے یہ ہماری زندگی ہی میں لڑی گئی ،اسی طرح پانی پر بھی جنگ ممکن ہے یہ ہماری زندگی میں ہو یا آئندہ نسل اس کا خمیازہ بھگتے‘‘۔ ہم بدنصیب پاک و ہند ان ممالک میں شامل ہیں جہاں ان جنگوں کا خطرہ ہے۔ میں اس سے پہلے بھی کئی بار اپنے کالموں میں اس بات کی نشاندہی کر چکا ہوں کہ پاکستان 2020ء تک ’’پانی کی انتہائی قلت‘‘ والا ملک بن جائیگا پاکستان میں فی کس پانی کی فراہمی جو گزشتہ صدی (1951ء) میں 5650 کیوبک میٹر تھی 1999ء میں 1450کیوبک میٹر رہ گئی تھی۔ جبکہ آئندہ چند برسوں میں یہ مزید کم ہو کر ایک ہزار کیوبک میٹر کو بھی نہیں چھو پائے گی اور کشور حسین شاد باد میں موجود زیر زمین پانی کی سطح لگ بھگ 50میٹر مزید نیچے چلی جائیگی۔ میرے حساب سے آج ہمارا (پاکستان و بھارت)سب سے اہم مسئلہ پانی کا حصول ہے نہ کہ جو جدل و جنگ اس لیے ہمیں (پاک و ہند) اس طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے تاکہ ہمیں صاف و شفاف پانی میسر آسکے کہ یہی وقت کا تقاضا ہے۔ پانی ہی ہماری شہہ رگ ہے اور پانی ہی بدن کا اٹوٹ انگ ہے۔