• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! آپ کو تو معلوم ہے نہ کہ: ’’آئین نو‘‘ میں پاکستان پر ماورائے آئین مسلط اولیگارکی (مافیا راج) کے دھڑلے سے سیاسی کھلواڑ و انتظامی جگاڑ کے جاری عوام دشمن کرتوتوں کے باعث وطن عزیز کو ابتر معاشرہ سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی واضح کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کے نظام بد کی انتہا کو قدیم چینی معاشرے کی بدنظمی و لاقانونیت کو خود چینی بدبخت (تین حروف پر مشتمل ہمارا لفظ توبہت سخت ہے، احتیاطً بدبخت لکھا جا رہا ہے) زمانہ قرار دے کر کسی بدبخت کو بددعا دیتے تھے کہ تو بدبخت ہے اور انہی کے زمانے میں چلا جا۔ اس چینی کہاوت کا ترجمہ گوری دنیا نے طنزاً ’’انٹرسٹنگ ٹائم‘‘ کیا ۔ یوں سمجھئے کہ ظہور اسلام سے قبل کا جدل و جہالت میں مبتلا عرب معاشرہ۔ کیا ہمارے ملک میں بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کے واقعات نہیں ہوئے اور انٹرسٹنگ ٹائم کے پاکستانی معتبر حتیٰ کہ منصفین کے گھروں میں غلام لڑکیوں پر جان لیوا تشدد نہیں ہو۱؟ ابھی ہفتہ دس روز قبل لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر بھائی کی شادی میں شرکت کیلئے شہر آنے والی تین مسافر بہنوں کو کسٹم کے باوردی عملے نے ایئر پورٹ سکیورٹی کی موجودگی میں جو مار لگائی ہے وہ ہمارے دور ابتری کی ہی تو تصویر تھی جس نے مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر کروڑ ہا اہل وطن کو ہراساں و مایوس کیا۔ قصور فقط اتنا تھا کہ ان کے شادی کے لائے لباس میں بھارتی تیار شدہ لہنگا بھی تھا۔ جبکہ بھارتی وزیر اعظم بغیر ویزہ لئے پاکستان کے قلب میں داخل ہو جاتا ہے اور جندال نامی بھارتی تاجر مری پہنچنے کیلئے ویزہ فری وزٹ کرتا رہا۔ یوں یہ بھی تو ایئرپورٹ پہنچ کر ہی شہر کی شادمانی ،آسودہ محفلوں تک پہنچے۔ کیا کبھی کسی پاکستانی وی وی آئی پی کوبھی یہ اعزاز بلند بھارت میں ملا؟ لاہور ایئرپورٹ پر بے چاری تین بہنوں کو بھائی کی شادی میں شرکت کیلئے وطن آنے کی سزا کوئی ایک واقعہ نہیں۔ اَن رپورٹیڈ واقعات، رپورٹ ہونے لگیں تو ہمارے انٹرسٹنگ ٹائم کی قلعی دنوں میں کھل جائے، اگرچہ پورا عوامی مینڈیٹ چوری ہونے پر اسی مسروقہ مینڈیٹ سے گورنمنٹ بنا دی گئی۔ ان کے مکمل بے نقاب ہونے پر بھی فرق تو کوئی پڑا نہیں،پڑا تبھی تو ثابت ہوتا ہے کہ ہم حالت ابتری میں یا ’’انٹرسٹنگ ٹائم‘‘ میں سلگ رہے ہیں۔

تین مضروبہ بہنوں کے ساتھ اور ان پر سرعام تشدد کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوا، اس پر اَن پروفیشنل سوشل مکمل پروفیشنل دعویدار مین اسٹریم میڈیا فالو اپ میں گیا یا نہیں؟ جتنا شور لاہور ایئر پورٹ پر مچا تھا میڈیا میں تو ایسا کچھ نہیں ہوا، کیوں ہوتا مسئلہ جو عوام کا ہے۔ نا کہ کسی سرکاری درباری فیملی شہری کا۔ ہاں ایک اور بڑا شور عوامی بہنوں کا ہی ایک اور مچ رہا ہے۔ یہ بھی تین بہنوں کا ہے۔ اگرچہ یہ بھی تعلیم یافتہ سادہ اور کوئی منصب دار یا سیاسی و یاسی نہیں لیکن ملکی نظام انہیں عوام کی نظر میں سجا اور دماغوں میں بسا چکا ہے۔ ایسے ہی ان پر پنجاب انتظامیہ کے ظلم نہیں ہو رہے؟ جیل حکام کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کے لارجز بنچ کے احکامات کی مسلسل حکم عدولی نے ان تین پریشان بہنوں کو پاکستانی قوتِ اخوت عوام کی علامت بنا دیا ہے۔ انہیں اسلام آباد پولیس با ر بار گرفتار کرتی یا تحویل میں لے لیتی ہے، کبھی حوالات میں بند کر دیتی اور کبھی ویرانوں میں چھوڑ آتی ہے۔ پاکستان بھر کے عوام کی تینوں محترم آپیاں علیمہ، ڈاکٹر عظمیٰ اور نورین بھی ان (عوام) کیلئے نظام بد کے خلاف اب اپنے اسیر بھائی عمران خان کی طرح مزاحمت مسلسل کی علامت بن گئی ہیں۔ پنجاب سرکار کے تھانہ کچہری ریکارڈ میں یہ دہشت گرد، انتشار پسند اور فرنگی قوانین شکن ہیں۔ ان کا میدان مزاحمت اڈیالہ جیل کے باہر گرد و غبار اور کوڑے کرکٹ سے اٹی چلچلاتی دھوپ کی سڑک ہے۔ ان کی مزاحمت جتنی پر عزم اور جرأت مندانہ، اسیر بھائی سے ملاقات کا حق اتنا ہی فطری بھی۔ دنیا کا کوئی ملک اپنے شہریوں کو اس حق سے محروم نہیں کرتا، اس کی گنجائش ابترپاکستان پر مسلط نظام بد میں ہی ہے۔ پھر بار بار کے عدالتی احکامات پر بھی انہیں ہر مرتبہ جیل سے باہر روک لیا جاتا ہے، اور فرض و حلف شکنی کی دیدہ دلیری کھلنڈری انتظامیہ کی گورننس کے حوالے سے تجزیوں کی قابل مطالعہ و تحقیق بھی کم نہیں کہ ایک صوبے کی انتظامیہ عدلیہ کی حکم عدولی میں کہاں تک جا سکتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ:جملہ سیاسی و حکومتی غلطیوں کا ازالہ تو عمران نے بعد از معزولی اقتدار اپنی کمال کامیاب ترین عوامی رابطہ مہم سے کردیا تھا۔ بے باک سیاسی ابلاغ کے کچھ ہچکولے کھاتے انہوں نےجوانان پاکستان کو کوئی اپنی کرکٹ ہیرو شپ یا مردانہ وجاہت سے اپنا گرویدہ نہیں بنایا۔ خان کو شباب پاکستان نے اپنا قائد تب ہی بنایا جب وہ (شباب) مکمل بیدار ہوا۔ عمران خان کےبہت وزنی اور قابل قدر بیانیوں نے نوجوانوں کو سرگرم کرنے اور ان کی سیاسی الجھنوں کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہم کوئی غلام ہیں؟ روایتی سیاسی ٹولہ عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھتا ہے۔ عوام کی محرومیوں کا درد دل سے ابلاغ، موروثی نظام سیاست و حکومت کی مسلسل مذمت بیرون ملک پاکستانی محنت کشوں اور تعلیم یافتہ طبقے کی عزت و قدر کا تجزیہ کیا۔ سب سے بڑھ کر کرپشن کلچر پر مسلسل کاری ضربیں لگانے اور ملکی اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے اعداد و شمار بڑی ہائی فری کوئنسی پر جو عمرانی سیاسی ابلاغ کے مسلسل مندرجات نے، نوجوانوں میں پاکستان کو شفاف اور فلاحی بنانے کا نیا جذبہ اور عزم پیدا کیا۔ عمران کی سیاسی انتظامی اور انفرادی غلطیوں و خطاؤں کے مقابل اس کے سیاسی ابلاغ کی تازگی، وسعت اور بمطابق قومی ضروریات کے ہونے نے، خان کے گرے ایریاز کا عوامی الاؤنس ساتھ ساتھ دینے اور لینے اور دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ خان نے پارٹی بنانے اور چلانے میں جتنی بھی غلطیاں کیں یا پھر بھی گھاگ پن کی عدم موجودگی تیزی سے بنتی عوامی شخصیت کے بڑی پلس بھی ثابت ہوئی ۔ اب تو وہ اولیگار کی (مافیہ راج) کے ظلم و ستم کی پوری طاقت کے استعمال کے خلاف سیاسی اور اپنے انفرادی کردار و مزاج سے مزاحمت کے ساتھ بے مثال قانونی جدوجہد کرتا کرتا جیل میں ہی کندن بن گیا ہے۔ 8فروری کا تاریخ ساز دن خان کی جرأت و مقبولیت،تازہ ذہنی اور اعلیٰ سیاسی کردار و اقرار کی مسلسل گواہیاں دیتا اسے پہلے ہی ترقی پذیر دنیا کا بڑا لیڈر بنا چکا ہے۔ آج گورنمنٹ 47کی دھما چوکڑیوں اور عوام کے مفادات کو کچل دینے والے فسطائی اقدامات نے جس طرح کارکنوں کے گھروں تک جبراً ان پر خوف و ہراس پیدا کیا، وہ ملکی داخلی استحکام کیلئے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ تین پریشان بہنوں کی بھائی سے ملاقات کی دو ہفتے پرامن اور قانونی مشقت نے پارٹی کے انتشار میں بھی جتنا مستحکم اور باوقار بنا دیا ہےاور ووٹ بینک میں بھی خاموشی سےا ضافہ کیا ہے۔ اسی قوت اخوت عوام سے بالآخر آئین کی بحالی اور قانون کی حکمرانی اور قوت اخوت عوام کا بول بالا ہوگا۔ وماعلینا الاالبلاغ۔

تازہ ترین