(گزشتہ سے پیوستہ)
سیریا میں ایرانی و روسی اثر و رسوخ ختم ہو چکا ہے۔ تازہ صورتحال کے مطابق بشار حکومت کے خاتمے پر جب ٹرمپ نے اردوان کو اس کامیابی کی مبارک دی تو صدر اردوان نے ٹرمپ سے کہا کہ اب سیریا میں استحکام کیلئے امریکا سے ملکر کام کریں گے، ابھی حال ہی میں اسرائیلی پرائم منسٹر کی موجودگی میں ٹرمپ نے اردوان کو اپنا بہترین دوست قرار دیا اور نیتن یاہو کو مخاطب کرتے ہوئےکہا کہ اب آپکی اس حوالے سے کوئی بھی فرمائش ہو تومیں وہ منوا سکتا ہوں، رہ گیا ایران کا اسلامی انقلاب یا اسکے پاسداران جنہوں نے برسر اقتدار آتے ہی تہران میں امریکی سفارت کاروں کو یرغمال بنوا دیا تھا جنکی رہائی کیلئے صدر جمی کارٹرنےخطرناک آپریشن ایگل کلا Operation Eagle Clawسے لیکر کوئی حربہ نہیں چھوڑا تھا۔ اپنے 52یرغمالیوں کو چھڑوانے کیلئے کارٹر کا یہ آپریشن بلاشبہ ایک اچھی لیکن رسکی وخطرناک منصوبہ بندی تھی جس میں کئی جھول بھی رہ گئے تھے جمی کارٹر کو زندگی بھر اسکا صدمہ رہا کہ انہوں نے جو ہیلی کاپٹرز بھیجے تھے اینڈ پر وہ محض پانچ کیوں رہ گئے تھے کاش وہ اضافی ہیلی کاپٹرز بھی ساتھ ہی روانہ کرتے نیز کون جان سکتا تھا کہ عین اس موقع پر ہی میکینکل خرابیوں اور ریتیلے طوفان نے ہر چیز کو اکھاڑ پچھاڑ دینا تھا اور پھر دو ہیلی کاپٹرز کا آپسی ٹکراؤ اور کمانڈوز کی ہلاکتیں ہونی تھیں، امریکی یرغمالیوں کی رہائی کا ایشو جمی کارٹر جیسے پاپولر صدر کی مقبولیت کو لے ڈوبا۔ درویش کا گمان ہے کہ مذہبی لوگوں میں جتنا بھی خلوص ہوتا ہو گا پولیٹکل وزڈم کی بہرحال کمی ہوتی ہے شاہ کے ساتھ امریکا کے جو بھی تعلقات تھے کارٹرنے بظاہر تعاون کرتے ہوئے بھی اندر سے شاہ کو جمہوریت انسانی حقوق اور آزادیوں کے حوالے سے خاصا بے دست و پا کر دیا تھا، اس سلسلے میں مخصوص مدت کے بعد سامنے آنیوالی امریکی دستاویزات سے خاصی رہنمائی ملتی ہے، اس دور کے تہران میں موجود امریکی سفیر کی یادداشتیں بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہیں، بدلے ہوئے حالات میں مہدی بازرگان جیسے سیاستدانوں کو آگے کرتے ہوئے کارٹر انتظامیہ سے سعودیوں جیسے ریلیشن استوار کیے جا سکتے تھے جو انقلابی ایران کے حق میں تھے، خود کارٹر نے خفیہ و واضح اس کا اظہار بھی کیا تھا اس سلسلے میں کارٹر کےامام خمینی کے نام خطوط اور پوپ جان پال کی امام خمینی سے خط و کتابت بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ جمی کی اپنی والدہ کے ساتھ عقیدت مندی کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ ہے کہ امریکی صدارت جیسے عظیم الشان منصب پر فائز ہوتے ہی کارٹر نے یہ تمنا ظاہر کی کہ وہ انڈیا کے دورے پر جانا چاہتے ہیں سفارتی سطح پر یہ ایک حیرت انگیز خواہش تھی معلوم ہوا یہ ان کی والدہ کی خواہش تھی جو 60کی دہائی میں دہلی سے 40 کلومیٹر دور ہریانہ کے قصبے نصیر آباد کے مرکز صحت میں دو برس تک بطور نرس خدمات سرانجام دے چکی تھیں۔ وہاں انہوں نےجذام کی بیماری کیخلاف کافی کام کیا تھا سو یکم جنوری 1978کو امریکی صدر تین روزہ دورے پر انڈیا پہنچے اور اپنی ماں کی خواہش کے مطابق ایک دن اس گاؤں میں ٹھہرے ۔ حکومت ہند نے اس گاؤں کا نام ’’کارٹر پور‘‘ رکھ دیا۔ آج وہ دنیا سے گئے ہیں تو کارٹر پور میں بھی ان کا اسی طرح سوگ منایا گیا ہے جیسے پاکستانی گاؤں ’گاہ‘ میں انڈین پرائم منسٹر منموہن کا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ انسانوں میں فطری طور پر منافرتیں نہیں ہوتیں یہ مخصوص ویسٹڈ انٹرسٹ کے تحت پھیلائی جاتی ہیں۔ جمی کارٹر اپنی عام زندگی میں نام و نمود سے ماورا سادہ اور نرم دل انسان تھے، فضول خرچی کو پسند نہ کرتے، سیاست میں آنے سے پہلے جارجیا پلین کے جس گھر میں قیام پذیر تھے اسی میں مقیم رہے اور وہیں سے ان کا جنازہ اٹھا۔ جمی کارٹر کی زندگی کا تلخ ترین واقعہ امریکی یرغمالیوں کا ایشو تھا جس کا انہوں نے خود بھی بارہا ذکر کیا تھا لیکن جیسے تیسے بالآخر اپنی صدارت کے آخری روز وہ ان کی رہائی کروانے میں کامیاب ہو گئے گو کہ ایرانیوں نے یہ شرط عائد کر دی تھی کہ وہ ان کی وائٹ ہاؤس سے رخصتی کے بعد ریگن کے حلف اٹھانے پر یرغمالیوں کو چھوڑیں گے، تاہم یہ معاہدہ کرتے ہوئے انہیں آٹھ ارب ڈالر دیگر اثاثہ جات اور اتنا سونا دینا پڑا جو کئی ٹرکوں میں لادا جا سکتا تھا۔ جمی کارٹر نے کہا تھا کہ میں نے بہت شروع میں خود سے یہ عہد کیا تھا کہ کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا ایک مرتبہ پلے بوائے میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اعتراف کیا کہ ہاں میں بھی ہر بشری کمزوری کا شکار رہا ہوں۔ حالانکہ وہ ایسے صدر تھے جن کی زندگی میں کوئی اسکینڈل نہ تھا، ان کے نزدیک ان کی زندگی کا سب سے سنجیدہ عالمی مسئلہ امیر اور غریب افراد میں بڑھتی ہوئی خلیج تھی، پارٹی ڈسپلن کے مطابق انہوں نے ووٹ کملا ہیرس کو دیا لیکن ٹرمپ کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کرنا نہیں بھولے۔ جمی کارٹر کیمپ ڈیوڈ معاہدے کو اپنی زندگی کا یادگار ترین دن گردانتے تھے جس کی وجہ سے انہیں 2002میں نوبل امن پرائز سے نوازا گیا۔ انسانی آدرشوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان سے اس کے سوا توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی سچائی تو یہ ہے کہ بشمول امریکا دنیا بھر کے مہذب انسانوں کے دلوں میں اس سادھو صفت انسان کے لیے جو محبت ہے وہ ہر ایوارڈ سے ماورا ہے۔