• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: نگہت جمیل

ملبوسات:    SAB TEXTILE BY FARRUKH ALI

آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر

عکّاسی: ایم ۔ کاشف

لے آؤٹ: نوید رشید

خُوب صُورت اطالوی اداکارہ صوفیہ لورین نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’میری ماں مجھے ہمیشہ کہا کرتی تھی، جب بھی گھر سے نکلو، نہا دھو کر، خُوب صاف ستھری ہو کے، اپنے سب سے بہترین کپڑے پہن کے، عمدہ میک اپ کر کے نکلو۔ تمہیں لوگوں میں رشک و چشمک کا احساس جگانا چاہیے، خود پر ترس و ترحُم کا نہیں۔ لوگ تو سدا تمہیں ٹُوٹا پُھوٹا، ہارا ہوا ہی دیکھنا چاہتے ہیں، مگر تم اس دنیا میں اُن کی خواہشات پوری کرنے کے لیے نہیں آئی۔ سو، میری پیاری بیٹی!تم خواہ اندر سے مر بھی رہی ہو، تمہارا ظاہر انتہائی خُوب صُورت،بے حد شان دار ہونا چاہیے۔

یہاں تک کہ تمہارے چہرے پہ پھیلی خوشی، ہونٹوں کی اُجلی مسکان سے اُن کی شماتت ’’Schadenfreude‘‘ (جرمن زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں، کسی دوسرے کو مصیبت، پریشانی میں دیکھ کر خوش ہونے کی مذموم خصلت) ہمیشہ کے لیے اپنی موت آپ مَرجائے۔‘‘ ہمارے خیال میں تو یہ ایک ماں کی اپنی بیٹی کو کی جانے والی چند بہترین نصیحتوں میں سے ایک ہے کہ عمومی طور پر جو لوگ ہمہ وقت خُود ترسی، یاس و محرومی کا لبادہ اوڑھے پِھرتے ہیں، زیادہ تر لوگ، خصوصاً دورِ حاضر میں اُن کا استہزا اُڑاتے، اُن پر خندہ زن ہی رہتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ناں کہ ’’ہنسنے والوں کے ساتھ ایک دنیا ہنستی ہے، مگر رونے والوں کے ساتھ کوئی کوئی ہی روتا ہے۔‘‘ اور یہ کہ ’’آپ کی کام یابی کا سہرا اپنے سر باندھنے، کریڈٹ لینے والے دعوے دار ہزار ہوں گے، مگر ناکامی کی ذمّےداری اُٹھانے والا کوئی ایک بھی نہیں۔‘‘ تو جب آپ کو اپنے دُکھوں، غموں، مسائل، تکالیف، ناکامیوں کا سارا بارخُود ہی اٹھانا ہے، تو پھر اپنی خوشیوں، مسرّتوں، کام یابیوں سے بھرپور لُطف اندوز ہونا، حَظ اُٹھانا، اُن کا پورا کریڈٹ لینا بھی سو فی صدی آپ ہی کا حق ہے۔ اُس میں سے دوسروں کو کیا دینا، اُنھیں کس حد تک شریک رکھنا ہے، یہ فیصلہ بھی آپ ہی کا ہونا چاہیے۔ بات کا رُخ کچھ تبدیل ہوگیا۔ دوبارہ صوفیہ لورین کی طرف آتے ہیں۔

اِس وقت اُن کی عُمر 90 سال کے لگ بھگ ہے۔ ہالی ووڈ کے ’’گولڈن ایرا‘‘ کے جو چند ایک اداکار حیات ہیں، یہ اُن میں شامل ہیں۔ صوفیہ کا فلمی کیریئر تقریباً 70 سال پر محیط ہے۔ انھوں نے 16سال کی عُمر میں فلم نگری میں قدم رکھا اور انڈسٹری چھوڑنے تک بلکہ ہنوز وہ ایک آئیکون کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ آپ آج بھی اگر اُنھیں کبھی کیمرے کے سامنے دیکھیں گے، تو وہ بعینہ اپنی ماں کی برسوں پرانی نصیحت ہی کا پَرتو دکھائی دیں گی۔ انتہائی خوش پوش، نک سک سے تیار اور خُوب ہنستی مُسکراتی۔

بلاشبہ اس بَھری دنیا میں شاید ہی کوئی ہو، جو مکمل، اپنی زندگی سے سو فی صد مطمئن ہو، مگر ضروری نہیں کہ ہمارا یہ ادھورا پن، عدم اطمینان ہمارے انگ انگ، روپ رنگ سے بھی ظاہر، آشکارا ہو۔ ہمیں دنیا کے سامنے ہمیشہ اپنا ’’بہترین‘‘ ہی پیش کرنا چاہیےاوراس ’’بہترین پیش کش‘‘ کی سب سے عُمدہ صُورت تو موسم، موقع محل اور شخصیت کی موزونیت کے ساتھ ایک شان دار پہناوے اور دیگر لوازماتِ آرائش و زیبائش کا انتخاب ہی ہے۔

وہ کیا ہے کہ ’’ہمارا لباس ہی ہماری شخصیت کا آئینہ دار، ہمارا پہلا تعارف، ہمارا اوّلین اور دیرپا تاثر ٹھہرتا ہے۔‘‘ بلکہ بعض لوگوں کے نزدیک تو یہ پہلا تاثر ہی آخری تاثر بھی قرار پاتا ہے۔ تو بھئی، اِسی لیے تو دنیا کہاں سے جہاں بھی جا پہنچے، سامانِ زیب و زینت، خصوصاً پہناووں کا حُسن ماند پڑتا ہے، نہ جوبن پر زوال آتا ہے، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ صنعت دن دونی، رات چوگنی ترقی ہی کررہی ہے۔

اُلٹ پھیر کے وہی فیشن، اسٹائل، رنگ و انداز آتے جاتے، رواج پاتے رہتے ہیں، مگر کاروبارِ حُسن و آرائش کہیں تھمتا، رُکتا دکھائی نہیں دیتا۔ یہی دیکھیے، فرشی شلواریں، انگرکھے، بیل باٹم، فراکیں، پشوازیں، شلواریں کُرتیاں اور میکسیاں، جو آج کل جدید ترین فیشن ٹرینڈ بنی ہوئی ہیں، جیسے یہ عصر حاضر کی دریافت، اختراع ہوں، درحقیقت ہماری نانیوں، دادیوں کے دورِ جوانی کے ٹرینڈز ہیں۔

جیسا کہ میمن/گجراتی کمیونٹی کی 90 ,80 سالہ عُمر رسیدہ خواتین آج بھی زیادہ تر میکسیز ہی میں ملبوس نظر آتی ہیں کہ یہ اُن کا مقبول ترین روایتی پہناوا ہے اور یہ کسی دَور میں بھی اُن کے یہاں متروک نہیں ہوا۔ اِسی طرح لکھنوی تہذیب کی حامل کئی بڑی بوڑھیاں آج بھی غرارے، کُرتیاں، تو بنگلا تمدّن کی اسیر متعدّد خواتین ساڑیوں کو روز مرّہ، کیژول پہناوے کے طور پر ہی استعمال کرتی ہیں۔ بہرکیف، ہماری آج کی بزم کچھ رنگارنگ میکسیز سے مرصّع ہے کہ جو اِن دنوں ہر طرح کی تقاریب کے لیے پسندیدہ ترین پہناوے کا مقام حاصل کیے ہوئے ہیں۔

ذرا دیکھیے، فیروزی شیڈ میں خُوب صُورت لیس سے آراستہ جارجٹ کی میکسی ہے، تو الاسٹک سلیوز کے ساتھ جارجٹ ہی کی پرنٹڈ میکسی کا ایک اور انداز ہے۔ سفید اِنر کے ساتھ لائم شیڈ کی ایپرن اسٹائل میکسی کا ویسٹرن لُک غضب ڈھا رہا ہے، تو بلڈ ریڈ رنگ میں سلک کی حسین ایمبرائڈرڈ میکسی کے بھی کیا ہی کہنے۔ اور پھر نفیس اسٹون اور سیکوینس ورک سے مرصّع سفید رنگ میکسی کی جاذبیت و ندرت کا تو جیسے کوئی مول ہی نہیں۔

اِن رنگ و انداز کے ساتھ، چہرے پہ نرم، اُجلی سی مسکان لیے جس بھی تقریب میں شریک ہوں گی، اُس میں جان نہ پڑ گئی، تو کہیے گا۔ سکھیاں، سہیلیاں رشک بَھری نگاہوں ہی سے نہیں دیکھیں گی۔ اِک دوجے سے کہتی بھی پھریں گی ؎ اللہ اللہ یہ حُسن کا عالم.....پھول جیسے کِھلے ہوں رنگا رنگ..... صُلحِ کُل عشق کا ہر اِک انداز..... حُسن کی ہر ادا پیامِ جنگ..... قہقہے اُن کی ساغروں کی کھنک..... مُسکراہٹ طلوعِ صُبح کا رنگ۔

سنڈے میگزین سے مزید
جنگ فیشن سے مزید