• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کو یاد ہوگا کہ 2014ء کا دھرنا پاکستان مخالف تحاریک کا آغاز تھا۔ جس میں باقی باتوں کے علاوہ ایک ناکام سول نافرمانی کی تحریک چلانے کی کوشش کی گئی تھی جس میں اوور سیز پاکستانیوں کو کہا گیا تھا کہ وہ پاکستان میں ترسیلات زر روک دیں۔ کا روباری لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ ٹیکس کی ادائیگی بند کر دیں ۔ عام لوگوں کو بجلی اور گیس کے بل جمع نہ کرانے کا کہا گیا ۔ دھرنے میں بانی پی ٹی آئی نے بجلی کا ایک پرانا بل جلا کر بظاہر اس تحریک کا آغاز کیا تھا ۔ وہ الگ بات ہے کہ اس کے فوری بعد بانی پی ٹی آئی نے سب سے پہلے اپنے بجلی بل کی ادائیگی کر دی تھی۔ یوں نہ دھرنا کامیاب ہوا نہ کسی اوور سیز پاکستانی نے ترسیلات زر کو روکا نہ سول نافرمانی کی تحریک کامیاب ہوئی البتہ چین کے صدر کا اہم دورہ ملتوی ہو گیا جس میں پاک چین کے درمیان چند اہم ترین معاہدے ہونے تھے ۔ اس دھرنےسے پاکستان کوپوری دنیا میں بدنام اورمعاشی طور پر مفلوج کرنے کی مذموم و ناکام کوشش ہوئیں ۔ اس وقت کی حکومت پھر بھی چلتی رہی اور ملک کی معیشت بہتر کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔

2018 ءکے الیکشن میں جس طرح پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی وہ سب کو معلوم ہے جس کے بارے میں بلاول بھٹو نے جو ایک تاریخی لفظ بولا وہ پی ٹی آئی حکومت کی پہچان بن گیا۔ چیئرمین پی پی پی نے پی ٹی آئی کی حکومت کو سلیکٹڈ کا نام دیا پھر وہ حکومت اسی نام سے مشہور ہوئی۔ آج پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو یہ لوگ کس منہ سےفارم 47والی حکومت کہتے ہیں جو خود سلیکٹڈ تھے ۔ پی ٹی آئی نے دوران اقتدار کرپشن اور لوٹ مار کابازار گرم کئے رکھا اور اس مقصد کے لئےپنجاب میں خصوصی طور پر ایک غیرمعروف و نا اہل کو وزیر اعلیٰ بنا یا یہ سب تاریخ کا حصہ ہے ۔ ہم پاکستانیوں کی دو بڑی کمزوریاں ہیں کہ معمولی تنازع کو بھی قتل و خاندانی دشمنیوں کے ذریعے حل کرنا واحد راستہ سمجھتے ہیں یا آپس میں بیٹھ کر اس کا حل نکالنے کے بجائے تھانوں اورکچریوں کی طرف دوڑ لگاتے ہیں۔ دوسری بڑی کمزوری یہ ہے کہ بعض سیاستدان اور جماعتیں جتنی بھی ہماری بہتری کے لیے اقدامات کریں لیکن ہم مانتے صرف مخالف جماعت کو ہیں جو ہمارے سامنے سبز باغات بنائے بے شک بعد میں سراب ثابت ہو جائیں لیکن ہم ہر اس سیاسی جماعت کے پیچھے چلتے ہیں جو حکومت وقت اور پاک فوج کے خلاف بولتی ہو۔ جمہوریت کے نام پر ہمیں بیوقوف بنانا بہت آسان ہے اگر چہ وہ جماعت اندرونی طور پر ملک و قوم کی لٹیا ڈبونے اور اقتدار پر قابض ہونا چاہتی ہو۔ حالانکہ ایسی جماعت اقتدار کی خاطر بیرونی آقاؤں کی خوشی کے لیے ایک طرح سے ملک و قوم کا سودا کرتی ہے ورنہ حالات کچھ بھی ہوں کون محب وطن محض چند روزہ اقتدار اور دولت کے حصول کے لیے ایسا سوچ سکتا ہے۔ آئینی طور پر اقتدار سے محرومی کے بعد بانی پی ٹی آئی نے ملک،ریاستی اداروں اور ان کی قیادت کے بارے میں لوگوں کو ورغلانے اور بدظن کرنے کا جو مذموم سلسلہ شروع کیا وہ اب بھی جاری ہے۔ اپنے اقتدار کے دوران بانی پی ٹی آئی نےدوست ممالک کو ناراض کر کے ملک کو معاشی طور پر کمزور کرنے کی ایسی مہم چلائی کہ ملکی معیشت کی کشتی ڈگمگانے لگی اس لئے اقتدار سے محرومی کے بعد بڑے فخر اور یقین کیساتھ ملک کے عنقریب دیوالیہ ہونے کا پروپیگنڈہ بڑی خوشی کے ساتھ کرنے لگے۔ آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو پاکستان کے ساتھ معاہدوں سے روکنے کے لیے خطوط لکھے ۔ یہ تو اللہ کریم کے خصوصی فضل و کرم کا نتیجہ تھا کہ موجودہ حکومت اور بالخصوص آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی پر خلوص کوششوں سے پاکستان مخالف تمام کوششیں بری طرح ناکام ہوئیں اور پاکستانی معیشت کی ڈولتی کشتی مضبوطی کے ساتھ منزل کی طرف رواں دواں ہو گئی ۔ہر طرف سے بدترین ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت 9مئی کا وہ دن آیا جس کی سازش سوچ سمجھ کر تیار کی گئی تھی ۔یہ افواج پاکستان اوردیگر سیکورٹی اداروں کے خلاف کھلی دہشت گردی تھی۔ ان واقعات کا سب سے اندوہناک ، شرمناک اور خلاف اسلام پہلو شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی تھی، یہ بے حرمتی پاکستان کی قوم ، عسکری اداروں اور عدلیہ سمیت تمام ریاستی اداروں پر ان شہداء کا قرض ہے جس سے یہاں کسی نے بھی رو گردانی کی یا ان لوگوں کو کسی بھی طرح معافی یا کوئی رعایت دی وہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور سوچیں کہ روز قیادت وہ ان شہدا کوکیا جواب دیں گے ۔ شہدا وہ لوگ ہیں جن کو اللہ عظیم نے روز قیامت، ہر قسم کے حساب اور جوابات سے مبرا و مستثنیٰ قرار دیا ہے اور ان کے لیے بیش بہا انعامات مقرر کئے گئے ہیں تو سوچئے کہ ان لوگوں کے بارے میں بیہودہ باتیں پھیلانے اور انکی یادگاروں کی دانستہ بے حرمتی کرنے والوں کا کیا حشر ہوگا۔9مئی کوظالمانہ دہشت گردی کرنے کے کوئی تو منصوبہ ساز و سہولت کار تھے ۔ ان واقعات کے منصوبہ ساز اور سہولت کارہی تو اصل مجرم ہیں ان کے بعد وہ لوگ جو دہشت گردی کے ان واقعات ہیں ان منصوبہ سازوں کے منصوبے پر عمل پیرا ہوئے۔ جی ایچ کیو اور قائداعظم ہائوس لاہور کے علاوہ چکدرہ اور ریڈیو پاکستان پر حملے کے منصوبہ سازوں سمیت ملوث افراد کس طرح کسی رعایت کے مستحق ہو سکتے ہیں۔ قانونی موشگافیوں اور ہیر پھیرکو ایک طرف رکھ کر ان تمام افراد کو فوری طور نشان عبرت بنایا جائے ۔ آج کل پھر کچھ لوگ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی جھوٹی افواہوں کے ذریعے اپنے بعض عہدیداران اور بچے کچھے کارکنوں کو دلاسہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مصدقہ خبریہ ہے کہ نہ اسٹیبلشمنٹ کے کسی سے مذاکرات ہو رہے ہیں نہ آئندہ اسکا ایک فیصد بھی امکان ہے۔

تازہ ترین