اِن دنوں میرا پاک ٹی ہائوس جانا بہت کم ہو گیا ہے جبکہ ایک وقت تھا کہ دن کا کافی وقت ادھر ہی گزرتا تھا تاہم کبھی کبھی جی اُچاٹ بھی ہو جاتا اور کئی ہفتے ادھر نہ جا پاتا۔ اس دور میں جہاں صف اول کے ادیب وہاں باقاعدگی سے آتے اور چائے کے ایک کپ پر گھنٹوں مختلف موضوعات پر گپ شپ کرتے وہاں کچھ ایسے لوگ بھی مل جاتے جو ان کی طرف پیٹھ کرکے بیٹھے ہوتے اور اپنی دنیا میں مست دکھائی دیتے۔ان میں سرفہرست نواب ناطق دہلوی بھی تھے جو کسی زمانے میں اس وقت کے صف اول کے انگریزی اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ سے منسلک رہے تھے۔ نواب صاحب خاموش بیٹھے رہتے اور ٹی ہائوس کے سارے ہنگاموں سے بے نیاز دکھائی دیتے اور لوگوں کے اندر چھپی ہوئی اداسیوں کو اپنی معصوم باتوں اور ’’لسانی تجربے‘‘ والے شعروں میں تحلیل کر دیتے تھے وہ بہت وضعدار شخص تھے غیور تھے اور کم وسائل ہونے کے باوجود کسی پر کبھی بار نہیں بنتے تھے ان کا ایک شعر ان کی پہچان بن کر رہ گیا تھا اور وہ شعر تھا ؎
ناطق کہ سخن تیرا ہے تریاق تریہا
ذنباق تریہا لکا ذنباق تریہا
نواب صاحب انتہائی سنجیدگی سے اس نوع کے شعر کہتے تھے ان کا ایک اور ’’شعر‘‘ سنیں؎
کیا کیا کیا نہ کیا کیا کیا نہیں مجھے
معلوم بعدازاں در میخانہ مے نشی
ایک شعر اور بھی ہے
جام آتش ز دہن سلی بے آب نہیں
آب وتاب اے بت بیداد گر تاب مئے تاب نہیں
یونس جاوید نے یہ شعر سن کر کہا نواب صاحب دوسرا مصرعہ بہت لمبا ہوگیا ہے جس پر نواب صاحب نے کہا میں نے یہ شعر لوگوں کو غالب کا شعر کہہ کر سنایا ہے اور انہوں نے اس پر سر دُھنا ہے تم کہتے ہو دوسرا مصرعہ لمبا ہو گیا ہے ۔
اس نوع کے ’’لسانی تجربات‘‘ پر مشتمل انکے بہت سے شعر تھے چند ایک مزید سن لیں ؎
فضولیات زمانہ تیری طرح ہم بھی
جو آسکے نہ خیالوں میں خام لائے ہیں
.........................
شوخئی پائےحنائے زلف دیکھا چاہئے
ان کو جانا تھا نہ اس جا ،گو گئیں
........................
رات بھر کیا جاگتی رہتی ہیں وہ
جوبنات النعش گردوں صبح ساقی ہوگئیں
اور ان کا ایک ’’شعر‘‘تو لاجواب ہے وہ بھی سنیں
میں نہ سمجھا ہوں نہ سمجھوں گا نہ سمجھائو مجھے
بس خدا کے لئے آگے سے سرک جائو مجھے
اس پر اعتراض ہوا کہ جناب یہ ’’سرک جائو مجھے ‘‘ میں ’’مجھے‘‘ کا کیا مطلب ہے بولے آپ کو اتنا بھی پتہ نہیں کہ ردیف ’’مجھے‘‘ ہے تو ردیف نے تو آنا ہی تھا۔
ایک دفعہ ٹی ہائوس کا ویٹر الٰہی بخش نے ان سے درخواست کی کہ وہ ایک شعر اس پر بھی کہیں اور کمال یہ ہے کہ انہوں نے اس پر فی البدیہ شعر کہہ دیا اور کمال یہ ہے کہ یہ شعر وزن میں تھا مگر بے معنی بہرحال تھا
یا الٰہی بخش دے میرے الٰہی بخش کو
تاقیامت بھول جائے تا پرانے نقش کو
کسی زمانے میں THE PIRATE کے نام سے ایک فلم بنی تھی نواب صاحب یہ فلم دیکھ کر اتنے انسپائر ہوئے کہ انہوں نے انگریزی میں ایک نظم لکھی جس کا عنوان تھا۔
The Piration of the Pirateنظم یاد نہیں تاہم اس کا اندازہ آپ نظم کے عنوان سے لگا سکتے ہیں آپ نے ابھی تک اندازہ لگا ہی لیا ہو گا کہ وہ ذہنی طور پر نارمل نہیں تھے !
ان دنوں ٹی ہائوس میں اسرار زیدی بھی بیٹھا کرتے تھے شاعر تھے اور ترقی پسند تھے چنانچہ باتھ روم کے ساتھ والی ٹیبل پر وہ براجمان ہوتے تھے ان کےسامنے نوجوان بہت مودب انداز میں بیٹھے نظر آتے۔ زیدی صاحب ایک ہفتہ وار میگزین میں لاہور کی ادبی رپورٹ لکھا کرتےتھے جو ان کے نزدیک اتنی اہم تھی کہ دنیا جہان کا کوئی بھی مسئلہ موضوع گفتگو ہوتاتو وہ فرماتے ’’میں نے اس پر لکھ دیا ہے ‘‘ یعنی یہ حرف آخر ہے اب اس پر گفتگو محض وقت کا ضیاع ہے ایک دن میں نے زچ ہو کر کہا زیدی صاحب اس کائنات میں اربوں سیارے ہیں ان میںسے ایک سیارہ ہماری یہ زمین ہے اس میں سینکڑوں یا ہزاروں چھوٹے بڑے ممالک ہیں ان میںسے ایک ملک ہمارا پاکستان ہے اس پاکستان میں ہزاروں شہر اور دیہات ہیں اور ان میں سے ایک شہر لاہور ہے لاہور میں ہزاروں ریسٹورنٹ ہیں جن میںسے ایک ریسٹورنٹ پاک ٹی ہائوس ہے اس پاک ٹی ہائوس میں کتنی ہی میزیں ہیں ان میزوں میں سے ایک میز وہ ہے جس پر بیٹھے آپ کہہ رہے ہیں ’’میں نے لکھ دیا ہے ‘‘ آپ کیا، میں کیا اور میں نے لکھ دیا ہے کی حیثیت کیا ؟
لاہور میں ایک کردار اور بھی تھے مگر وہ ٹی ہائوس کبھی نہیں آئے ان کا نام ’’ڈاکٹر‘‘ فضل الرحمان تھا اور مجاہد اردو کہلاتے تھے یہ خطاب بقول مجاہد اردو ڈاکٹر سید عبداللہ نے انہیں اس وقت دیا تھا جب انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی کار روک کر ان سے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان میں اردو نافذ کی جائے موصوف خود بھی ہمیشہ اردو بولتے تھے جو انہیں اردو بولتے بلکہ اردو ’’رولتے ‘‘ دیکھتا وہ اردو کے خلاف ہو جاتا، ڈاکٹر صاحب تو تلے تھے جس سے ان کی اردو جلترنگ کی شکل بھی اختیار کرلیتی تھی ۔موصوف ساری عمر نہ صرف نفاذ اردو کیلئے کوشاں رہے بلکہ صدر پاکستان یا وزیر اعظم بننے کیلئے ہر بار الیکشن میں کاغذات نامزدگی جمع کراتے اور اس کے بعد اپنی سائیکل پکڑتے اور میرے اور منو بھائی کے علاوہ کچھ دوسرے کالم نگاروں کی طرف جاتے اور اصرار کرتے کہ ان کی کنویسنگ کی جائے مگر بہت کھلے دل کے آدمی تھے وہ صاحب اقتدار صرف نفاذ اردو کیلئے ہونا چاہتے تھے اور ہمارے ساتھ وعدہ کرتے کہ ہمیں بھی شامل اقتدار کیا جائے گا ۔منوبھائی کیلئے انہوں نے وزیر اطلاعات کا عہدہ رکھا ہوا تھا اور اقتدار میں آنے کے بعد میرا وزیر تعلیم بننا پتھر پر لکیر تھا موصوف اپنی کمپین سائیکل پر کرتے تھے اچکن اور قائداعظم ایسی کیپ پہن کر وہ شہر کے ایک کونےسے دوسرے کونےتک کا سفر کرتے اس دوران وہ ان تقریبات میں بھی شرکت کرتے جہاں چائے پانی کا اہتمام ہوتا تھا وہ نہ صرف خود وہاں پیٹ بھر کر کھاتے بلکہ اپنے مستقبل کے وزیر اطلاعات اور وزیر تعلیم کیلئے بھی بچا کھچا شاپر میں بھر کر لاتے ان کے کاغذات نامزدگی ہمیشہ رد ہوتے جس کا انہیں تو افسوس ہوتا ہی تھا ان میں کہیں زیادہ افسوس ہمیں ہوتا کہ ہمارا رزق کچھ دنوں کیلئے بند ہو جاتا میں نے ان کی زندگی میں درجن بھر کالم اس طرح کے لکھے جس طرح کا یہ کالم ہے اور وہ ہر بار شکریہ ادا کرتے بلکہ احساس ممنونیت سے ان کی آنکھیں نم ہوجاتیں، مجاہد اردو اپنے توتلے ترنم میں مجھے اپنا کلام بھی سناتے جس سے میری ساری تھکن دور ہو جاتی مجھے ہر بار یقین ہو جاتا کہ ہنسی واقعی علاج غم ہے۔ اللہ مرحوم کی مغفرت کرے قوم نے ان کےساتھ اچھا سلوک نہیں کیا صرف ان کے ساتھ نہیں میرے ساتھ بھی، ہم لوگ برسراقتدار آ جاتے تو قوم کو لگ پتہ جاتا یعنی یہ کہ قیام پاکستان کے بعد کی تمام حکومتوں سے آپ سب کے گلے شکوے دور ہو جاتے!