• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنوبی ایشیا کی ایٹمی طاقتوں بھارت اور پاکستان کے درمیان پہلگام واقعے کے تناظر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی جس کے باقاعدہ جنگ میں تبدیل ہونے کے خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، پوری عالمی برادری اور اس کے سرخیل امریکہ کی فوری توجہ کی طالب ہے تاہم گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی ایشیا کی اس مخدوش صورت حال پر جس بے نیازی پر مبنی طرز عمل کا مظاہرہ کیا، وہ دنیا میں امن کے خواہاں ہر شخص کیلئے حیرت انگیز ہے۔صحافیوں سے گفتگو کے دوران صدر ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ پہلگام حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی ہے تو کیا آپ ان ممالک کو کوئی پیغام دیں گے یا ان کے رہنماؤں سے بات کریں گے؟ صدرٹرمپ نے اس سوال کا جواب دینے سے گریزکیا اور عالمی امور میں اپنی ہوش رُبامعلومات کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات تو پندرہ سو سال سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں جبکہ کشمیر کا مسئلہ ایک ہزار سال سے یا شاید اس سے بھی زیادہ پرانا ہے جس پر دونوں ملک لڑتے چلے آرہے ہیں۔میں دونوں ملکوں کے رہنماؤں کو جانتا ہوں۔ وہ کسی نہ کسی طرح خود ہی مسئلے کا حل نکال لیں گے۔اس سے ایک دن پہلے امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے اس سوال پر کہ صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان قیام امن کے لیے کردار ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی تو کیا اب ٹرمپ انتظامیہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ بڑھتی کشیدگی کم کرانے کے لیے کوئی کردار ادا کررہی ہے؟ ٹیمی بروس نے جواب دیا تھا کہ صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے اور ہم اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور یقینی طور پر اس وقت ہم کشمیر یا جموں کے اسٹیٹس پر کوئی مؤقف نہیں اپنا رہے۔ جنوبی ایشیا کی موجودہ خطرناک صورت حال میں ٹرمپ انتظامیہ کا یہ غیرسنجیدہ طرزعمل جس بنا پر بحیثیت عالمی سپرپاور انتہائی ناقابل رشک اور مایوس کن ہےیہ پہلگام واقعے کے بعد پاکستان کے خلاف بھارت کے بلاجواز جارحانہ اقدامات سے چشم پوشی کرتے ہوئے عملاً جنگ کی طرف پیش قدمی میںاس کی حوصلہ افزائی کرنے کی روش ہے۔ بھارتی رویے کے حوالے سے یہ حقائق سب کے سامنے ہیں کہ مودی حکومت نے منگل کے روز سانحہ پہلگام کے فوراً بعد کسی تحقیق اورثبوت کے بغیر پاکستان کے خلاف بے بنیاد گمراہ کن پروپیگنڈے کا طوفان اٹھا کر سخت سفارتی اقدامات ہی نہیں کیے بلکہ پاک بھارت جنگوں کے دوران بھی برقرار رہنے والے دریائی پانی کی تقسیم کے 1960 ء سے جاری سندھ طاس معاہدے کو بھی معطل کرنے کی کارروائی کرڈالی۔ مودی سرکار نے اپنے اس طرزعمل سے پوری طرح واضح کردیا کہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے وہ علاقائی ہی نہیں عالمی امن کو بھی تہ و بالا کرنے پر تلی ہوئی ہے کیونکہ اس سمت میں کسی عملی پیش رفت کا مطلب پاکستان کو جنگ کی دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔پاکستان نے اپنے جوابی ردعمل میں اس بات کو پوری طرح واضح بھی کردیا کہ پاکستان کا پانی روکنے کی کوشش کا مطلب ایک بھرپور اور کھلی جنگ ہوگا۔قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیہ کے بعد سینیٹ نے بھی گزشتہ روز اتفاق رائے منظور کی گئی قرارداد میں پاکستان کے خلاف بھارتی الزام تراشی کو قطعاً بدنیتی پر مبنی اور خود بھارت کو دنیا بھر میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان کی حفاظت اور سلامتی کیلئے پوری پاکستانی قوم ہر قربانی کیلئے تیار ہے۔جنوبی ایشیا کی جوہری طاقتوں کے درمیان ہر لمحہ بڑھتی ہوئی اس کشیدگی کے آگے بند باندھنا پوری عالمی برادری اور خاص طور پر سپرپاور کی حیثیت سے امریکہ کی ذمے داری ہے جس سے گریز دنیا کے امن کو خطرے میں ڈالنے کے عمل میں شرکت کے مترادف ہوگا۔

تازہ ترین