خون کے اثرات ہوتے ہیں ، سیرتوں کی تشکیل میں موروثی خصائص کا کردار اہم ہے ۔ علم ، للہیت ، امتیازی خصوصیات ، یہ پیمانے صدیوں میں قائم ہوتے ہیں پھر آنے والی نسلیں اِس خاندانی فضامیں پروان چڑھتی ہیں اور اِنہی سانچوں میں ڈھلتی رہتی ہیں ۔
سید ابو بکر غزنوی ؒ کے جدامجد ہیں سید عبداللہ غزنوی ؒ ۔ شیخ شمس الحق ڈیانوی ؒ ’’ غایۃُالمقصود ‘‘ کے مقدمہ میں انکی مدح میں لکھتے ہیں ’’ وہ ہر وقت اور ہر حالت میں خدائے بزرگ و برتر کے ذکر میں ڈوبے رہتے تھے حتیٰ کہ انکا گوشت ، انکی ہڈیاں ، انکے پٹھے اور انکا ہر ہر بن مو اللہ کی طرف متوجہ تھا۔‘‘ حضرت عبداللہ غزنوی ؒ کے صاحبزادے امام عبدالجبار غزنوی ؒ امرتسرمیں قرآن مجید کا درس دیا کرتے تھے، مولانا شبلی نعمانی ؒ ایک مرتبہ اس درس میں شریک ہوئے ، وہ بیان کرتے ہیں مولانا عبدالجبار ؒ اپنی زبان سے اللہ تعالیٰ کا نام لیتے تھے تو بے اختیار جی چاہتا تھا کہ سر انکے قدموں پر رکھ دیا جائے ۔ سید ابو بکر غزنوی ؒ اپنے والد گرامی ؒ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ایک دن اپنی بعض پریشانیوں کا تذکر ہ کر رہے تھے ، یکا یک ان کے چہرے پر بشاشت آگئی اور مسکراتے ہوئے کہنے لگے ’’ ابوبکر ! ذکر کرتے وقت تو میں بادشاہ ہوتا ہوں، مجھے کوئی غم نہیں ہوتا‘‘ ۔ سید ابوبکر غزنویؒ ، یہ چوتھی نسل ہے حضرت عبداللہ غزنویؒ کے خاندان کی۔
میں نے حضرت والد صاحبؒ کے صبح شام دیکھے ہیں ، نماز ِ فجر کے بعد ذکر کیلئے بیٹھتے تھے اور بلاناغہ بیٹھتے تھے، ذکر کے دوران ایک خاص کیفیت ان پر طاری رہتی، دنیا کی کوئی بات نہ کرتے اور نہ کسی دوسری طرف متوجہ ہوتے ۔ انکے پاس بہت سے لوگ آتے جو ان سے ذکر کرنے کے طریقے سیکھتے تھے۔ انہیں حضور علیہ ا لصلوۃ والسلام کی بات سناتے ’’ کان یذکُرُ کل احیانہ ‘‘ (وہ ہر آن ہر لمحہ اللہ کا ذکر کرتے تھے) فرمایا کرتے تھے کہ ذکر کرنے سے ساری زندگی خیر کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے اور قوت عمل جاگ اُٹھتی ہے اور وضاحت کیلئے حدیث سنایا کرتے ’’ جب کچھ لوگ اللہ کے ذکر کی خاطر مل بیٹھتے ہیں ، فرشتے انکا احاطہ کر لیتے ہیں ، رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے ، سکینت ان پر نازل ہوتی ہے ‘‘۔ حضرت والد صاحب ؒ نماز پر بہت زور دیتے تھے فرماتے تھے نماز ایک فن ہے، اس پر محنت کرنی چاہیے اللہ کے حضور کھڑے ہونے کا ڈھنگ سیکھنا چاہیے ، توجہ کیسے اللہ کی طرف رکھی جائے، وسوسوں سے کیسے بچا جائے ، خشوع کیسے پیدا ہوتا ہے ۔ کہتے تھے نماز کے دو حصّے ہیں ایک صورت ہے اور ایک نماز کی حقیقت ہے۔ قیام ، رکوع ، سجود صورت ہے اور جذب دروں ، سینے میں سے ابلتی ہوئی ہنڈیا کی آواز کا آنا یہ نماز کی روح ہے۔ اسکے بغیر نماز ادھوری ہے اسکے بغیر نماز جُعِلت قرۃ عینی فی الصلوۃ نہیں بنتی ۔ خشوع کے بغیر کا میابی نہیں ملتی، قد افلح المومنون الذین ھم فی صلوٰ تھم خاشعون ۔میں نے خود دوران نماز رونے کی آواز اُن کے کمرے سے آتی ہوئی کئی بار سنی، امامت کرواتے ہوئے رقت کے غلبہ کی وجہ سے انکی آواز لرز جایا کرتی تھی۔ والد صاحبؒ کی نماز میں یہ کیفیت دو چار برس کی بات نہ تھی ۔ حضرت عبداللہ غزنوی ؒ کے بارے پڑھا ایک مرتبہ عصر کی نماز پڑھارہے تھے کہ یکا یک سخت بارش شروع ہو گئی ، اکثر مقتدی نماز چھوڑ کر بھاگ گئے ، بعد از نماز دعا کیلئے ہاتھ اُٹھائے تو ہاتھ کیچڑ سے بھرے ہوئے تھے، فرمانے لگے ’’ باراں شد ؟ واللہ عبداللہ راخبر نشد ۔‘‘ حضرت عبدالواحد غزنوی ؒ کی اقتداء میں نماز پڑھنے والے کہتے تھے کہ نماز کی جو لذت یہاں آتی ہے وہ اور کہیں نہیں آتی ، دوسرے لوگ جب عبدالواحد غزنوی ؒ کے مقتد یوں کو کہیں نماز پڑھتے دیکھتے تو ان سے پوچھتے کہ آپ نے یہ نماز کہاں سے سیکھی ہے آپکی تو نماز وں کا رنگ ہی کچھ اور ہے ۔ حضرت والد صاحب ؒ کے خاندان میں نماز کی یہ کیفیت مدتوں سے نسلاً بعد نسل چل رہی تھی۔
حضرت والد صاحبؒ ائمہ کرام ، اولیا ء اللہ کا انتہائی درجہ احترام بجا لایا کرتے تھے، اپنی تقریروں میں بار بار کہتے تھے کہ بآدب با مراد ہوتے ہیں یہ حدیث قدسی سناتے من عادلی ولیا فقد اذنتہ بالحرب ، ’’ جو میرے کسی ولی سے عداوت رکھتا ہے میں اسکے خلاف اعلان ِ جنگ کرتا ہوں ‘‘۔ انہوں نے دیکھا تھا کہ انکے والد گرامی حضرت دائود غزنوی ؒ کے دل میںائمہ کرام کا کتنا احترام تھا، وہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کا اسم گرامی کس قدر عزت سے لیتے تھے اور اگر انکے سامنے کوئی شخص احترام کا دامن ہاتھ سے چھوڑتا تو سخت ناراض ہوتے اور اُسے ڈانٹتے اور فرماتے ، باز آئو ایسا نہ ہو کہ تمھیں حضرت امام ابوحنیفہؒ کی روحانی بد دعا لے کر بیٹھ جائےایک خاص مسلک ِ فقہ کے پابند ہو نے کے باوجود تعصبات سے اُن کا دل با لکل صاف تھا ۔ مولانا احمد علی صاحبؒ جیسی عظیم المرتبت شخصیت جن کی وفات پر مولانا دائود غزنوی ؒ نے فرمایا تھا آج دین کا ایک ستون گر گیا ، یہ دونوں اپنے مسلک کے سربرآوردہ علماء ایک دوسرے کی اقتدا میں نماز ادا کرتے تھے ، حضرت دائود غزنوی ؒ کو مولانا تھانویؒ (نوّ راللہ مرقدہ ) کے خلیفہ خاص حضرت مولانا مفتی حسنؒ سے قلبی لگائو تھا ۔اپنےآبائو اجداد کی یہ سنتیں، انکا رنگ حضرت والد صاحب ؒ کی شخصیت میں اندر تک اتر چکے تھے۔ اب آخر میں حضرت والد صاحب ؒ کا ایک جملہ لکھتا ہوں کہتے تھے کہ جب میں اپنی زندگی کو دیکھتا ہوں تو حضرت یوسف علیہ السلام کی اِقتدامیں پکار اُٹھتا ہوں واتّبعتُ مِلّتَہ آبائی ابراھیم و اسحق و یعقوب ۔