کینیڈا کے پارلیمانی انتخابات کیلئے بعض علاقوں میں ووٹنگ ختم ہوگئی ہے جبکہ بعض میں پولنگ ختم ہونے میں کچھ دیر باقی ہے، کینیڈا کے وزیراعظم اور لبرل پارٹی کے امیدوار مارک کارنی اور کنزرویٹو پارٹی کے پیئر Poly-ev میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے، 50 سے زائد پاکستانی نژاد امیدوار مختلف سیاسی جماعتوں سے قسمت آزمائی کر رہے ہیں، اکثریت حاصل کرنے کے لیے 343 نشستوں میں سے 172 نشستیں درکار ہیں۔
کینیڈا میں لبرل پارٹی کا اقتدار برقرار رہے گا یا کنزریٹوز وزارت عظمی سنبھالیں گے، فیصلے کیلئے ووٹنگ بعض علاقوں میں آخری لمحات میں جاری ہے۔
تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈر اپنا ووٹ کاسٹ کرچکے ہیں اور ووٹنگ سب سے پہلے نیوفاؤنڈ لینڈ اور لیبرا ڈور میں بند ہوئی جبکہ اونٹاریو سمیت دیگر علاقوں میں ایسٹرن ٹائم ساڑھے نو بجے بند ہوگی۔
کینیڈا کے پارلیمانی انتخابات کیلئے ووٹنگ کا وقت ختم ہونے کے قریب پہنچ رہا ہے، لبرل پارٹی کے لیڈر مارک کارنی نے اوٹاوا اور انکے بڑے حریف پئیغ پولی ایوغ نے بھی اپنا ووٹ اوٹاوا ہی میں کاسٹ کیا۔
لاکھوں افراد اس وقت پولنگ اسٹیشنوں پر ہیں جبکہ سات اعشاریہ تین ملین افراد پہلے ہی حق رائے دہی استعمال کرچکے ہیں، ووٹرز دارالعوام کیلئے امیدواروں کا انتخاب کررہے ہیں۔
343 کے ایوان میں اکثریت حاصل کرنے کیلئے کسی بھی پارٹی کو 172 نشستیں درکار ہوں گی۔
کینیڈا میں سینیٹ کے اراکین کا تقرر کیا جاتا ہے اور وہ وزیراعظم کے انتخاب میں حصہ نہیں لیتے۔
کینیڈا میں اگلی صبح سے پہلے ہی زیادہ تر ووٹ شمار کیے جانےکا امکان ہے۔ جس کے بعد ابتدائی نتائج جاری کردیے جائیں گے۔
الیکشن سے پہلے لبرلز کے پاس ایک سوباون اور کنزریٹوز کے پاس ایک سو بیس نشستیں تھیں جبکہ Bloc Québécois کے پاس تینتیس اور این ڈی پی کے پاس چوبیس نشستیں تھیں۔
کنزریٹو لیڈر کی کوشش تھی کہ وہ الیکشن کو ملک میں مہنگائی اور امیگریشن کی وجہ سے شہرت کھونے والے جسٹن ٹروڈو کیخلاف ریفرنڈم بنادیں تاہم ٹروڈو کے مستعفی ہونے اور مرکزی بینک کے دو بار کے سربراہ مارک کارنی کے چند ماہ پہلے عہدہ سنبھالنے سے صورتحال بدل گئی ہے۔
مارک کارنی کا کہنا ہےکہ وہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کے لیے بہترین امیدوار ہیں کیونکہ اقتصادی بحران کے دور میں وہ کامیاب بینکار رہے ہیں۔
کنزریٹو پارٹی کے لیڈر پئیغ پولی ایوغ نے کہا کہ صدر ٹرمپ آپ ہمارے الیکشن سے ایک طرف رہیں۔ صرف کینیڈا کے عوام ہی بیلٹ باکس کے زریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔
کینیڈا ہمیشہ خود مختار، آزاد اور خود پر فخر کرنیوالاملک رہےگا۔ یہ کبھی بھی امریکا کی اکاون ویں ریاست نہیں بنےگا۔
انہوں نے کہا کہ آج کینیڈا کے عوام تبدیلی کیلیے ووٹ دے سکتے ہیں تاکہ ہمارا ملک مضبوط ہوا، اپنے پیروں پرکھڑا ہو اور طاقت کےساتھ امریکا کا سامنا کرے۔
بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی کیینیڈا کی جماعت نیو ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر جگمیت سنگھ نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ پر چوٹ کی اور کہا کہ سنا ہے کہ ٹرمپ ہمارے الیکشن کے بارے میں کچھ کہہ رہے ہیں میں انہیں یہ جواب دوں گا کہ وہ ہمارا مستقبل نہیں چن سکتے۔اپنا مستقبل ہم خود بناتےہیں۔
واضح رہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آج ایک بار پھر دہرایا تھا کہ کینیڈا کو امریکا کی اکاون ویں ریاست ہونا چاہیے۔
یہ الیکشن ایسے وقت ہورہے ہیں جب صدر ٹرمپ کی جانب سے کینیڈا پر عائد ٹیرف ووٹرز کے ذہنوں پر سوار ہے۔ساتھ ہی شہری علاقوں میں گھروں کی قیمتیں زیادہ ہونا ،بے روزگاری کی شرح چھ اعشاریہ سات فیصد ہونا اور ہیلتھ کئیر تک لوگوں کی رسائی میں دشواری سمیت دیگر اشوز بھی لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبزول کیے ہوئےہیں۔