• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ عرصہ قبل یہ شوشہ چھوڑا گیا تھا کہ قائداعظمؒ نے جگن ناتھ آزاد سے پاکستان کا ترانہ لکھوایا۔ میں نے بڑی محنت سے اس موضوع پر تحقیق کی اور حوالے دے کر ثابت کیا کہ یہ نہ صرف سفید جھوٹ ہے بلکہ قائداعظمؒ پر بہتان بھی ہے۔ فیضان جعفری نے تحقیق کر کے پاکستان کے ترانے کی کہانی لکھ دی ہے اور مجھے خط لکھا ہے جو میں قارئین کی خدمت میں ’’القابات‘‘ نکال کر پیش کررہا ہوں۔
’’جگن ناتھ آزاد نے اپنی زندگی میں کل چار دعوے کیے جس میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کا پہلا ترانہ انہوں نے لکھا ہے۔ ان چار دعوئوں میں انہوں نے مسلسل اور بتدریج اضافہ کیا۔ پہلا دعویٰ 1966ء میں سامنے آیا جو نہایت ہی مختصر تھا اور پھر ان کی کتاب ’’آنکھیں ترستیاں ہیں‘‘ کا حصہ بن گیا۔ چوتھا دعویٰ انہوں نے ایک انٹرویو میں کیا جس میں انہوں نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا کہ قائداعظم نے کس کس تقریر میں اقلیتوں کے تحفظ اور مذہبی آزادی کی بات کی ہے، سو ان سے ترانہ بھی اسی سیاق و سباق میں لکھوایا گیا تھا۔ پانچواں دعویٰ ان کی وفات کے چند روز بعد بھارت سے کیا گیا جس میں قائداعظم سے جگن ناتھ آزاد کی ملاقات اور قائداعظم کے ’’سیکولر‘‘ وژن کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس دعوے کی انٹرنیٹ پر خوب تشہیر کی گئی اور پھر پاکستان میں سیکولرازم کی تبلیغ کرنے والوں کے ہاتھ یہ دعویٰ جس جس انداز میں لگا وہ اس دعویٰ کو کسی ثبوت اور دلیل کے بغیر ہی قبول کرتاچلا گیا۔ یاد ررہے کہ پانچواں دعویٰ جگن ناتھ آزاد کا نہیں بلکہ بھارتی صحافی لوپوری کا خود ساختہ ہے۔ تاہم اس سے اس بات کی نفی نہیں ہوتی کہ جگن ناتھ آزاد نے پاکستان کا پہلا قومی ترانہ (جو کہ سرکاری طور پر منظور ہوا ہو) لکھنے کا دعویٰ نہیں کیا، وہ اپنے حلقہ احباب میں اکثر اس بات کا ذکر کیا کرتے تھے اورکئی اخبارات و رسائل میں یہ دعوے ان کی زندگی میں پاکستان اور بھارت دونوں جگہ چھپ چکے تھے۔
تحقیقی مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جگن ناتھ آزاد نے جو نظم لکھی وہ قومی ’ترانہ‘ بننے کی صلاحیت سے محروم ہے کیونکہ اس کے ہر بند میں لفظ ’’آج‘‘، ’’آج‘‘ کی تکرار ہے۔ یہ ترانہ 14 اگست 1947ء کی ایک یادگاری نظم تو ہوسکتا ہے لیکن ایک ملی نغمہ یا قومی ترانہ نہیں۔ اس نظم کے معانی و مطالب دیکھے جائیں تو اس میں آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد کے دنوںکا ایک امید افزا تقابل ہے جو آزادی کے کئی سال بعد یقیناً غیر متعلق ہو جاتا۔ جگن ناتھ آزاد نے ایک انٹرویو میں دعوے کے ساتھ ساتھ خود اعتراف بھی کیا کہ ان کا ’ترانہ، جلد بازی میں لکھا گیا، اس کی کوئی باقاعدہ دھن نہیں تھی اور وہ ’تھرو پراپر چینل‘ بھی نہیں تھا اس لئے اسے ترک کیا ہی جانا تھا۔ بعد میں ترانہ کمیٹی بنا کر جس طرح سرکاری طور پر ترانے کا انتخاب کیا گیا وہی معیاری عمل تھا۔
پانچویں دعوے کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں ’سیکولرازم‘ کو اولیت حاصل ہے اور جگن ناتھ آزاد کے ’ترانے‘ کی موجودگی دعوے سے زیادہ دلیل کے طور پر استعمال کی جارہی ہے۔ جگن ناتھ آزاد، ٹریبیون، اور ’جےہند، نامی اخبارات میں کام کررہے تھے جو کہ کانگریس کے حامی اور پاکستان کے مخالف اخبارات تھے ہندوستان چلے جانے کے بعد بھی آزاد کو کانگریس کے ادوار میں سرکاری عہدوں سے نوازا جاتا رہا۔بھلا ایسا شخص کیسے تقسیم ہندوستان کے وقت پاکستان کے لئے ایسی امید افزا نظم لکھ سکتا ہے؟ اسی دور میں بڑے بڑے اردو شعرا موجود تھے جن میں تاجور نجیب آبادی، سید عابد علی عابد، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، عبدالمجید سالک، حفیظ جالندھری، جوش ملیح آبادی اور فیض احمد فیض کا نام شامل ہے۔ علاوہ ازیں جگن ناتھ آزاد اگست 1947ء میں شدید عدم تحفظ کا شکار تھے اور اپنے مسلمان دوستوں کے ہاں پناہ لے رہے تھے۔ ایسے میں کس طرح کوئی ایسی نظمیں لکھ سکتا ہے؟
حفیظ جالندھری کے ترانے کے حوالے سے انہی حلقوں کی جانب سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کا ترانہ شاہ ایران کو خوش کرنے کے لئے لکھا گیاتھا اس لئے وہ سب فارسی میں تھا اور حفیظ جالندھری نے ترانہ کمیٹی کارکن ہونے کی حیثیت سے اپنا ترانہ بآسانی منظور کروا لیا۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حفیظ جالندھری کو ترانہ کمیٹی کارکن اس لئے بنایا گیا کہ وزیراعظم لیاقت علی خان انہیں ترانہ کمیٹی کی تشکیل سے قبل ایک قومی ترانہ تیار کرنے کا حکم دے چکے تھے اور اس پر کام کررہے تھے۔ حفیظ جالندھری آزاد کشمیر کا قومی ترانہ، وطن ہمارا آزاد کشمیر‘ بھی اس سے پہلے لکھ چکے تھے۔ شہ نامہ ٔ اسلام کا خالق ہونے کے علاوہ پاک فوج میں ڈائریکٹر مورالز تھے اور موسیقی کے فن کو بھی خوب جانتے تھے۔ ترانہ کمیٹی میں حفیظ جالندھری کے علاوہ کئی شعراء مثلاً زیڈ اے بخاری، اے ڈی اظہر، کوی جسیم الدین بھی شامل تھے۔ کمیٹی کارکن ہونا ترانہ لکھنے کے مقابلے کے منافی نہ تھا۔ حفیظ جالندھری مقابلے میں شامل ہونے سے پہلے یہ بات کہہ چکے تھے کہ سائوتھ افریقہ میں مقیم پاکستانی احمد اے آر غنی نے جن انعامات کا اعلان کیا ہے (پانچ ہزار دھن ترتیب دینے اور پانچ ہزار بول لکھنے کے) انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی وہ انعام کےلالچ میں ترانہ لکھنے کے مقابلے میں شریک ہورہے ہیں۔ زیڈ اے بخاری اور حفیظ جالندھری کے مابین مسابقت پہلے ترانہ کمیٹی اور پھر کابینہ کی سطح تک چلتی رہی۔ اے ڈی اظہر نے کلام اقبال کے کسی ٹکڑے کو قومی ترانے کے طور پر اپنانے کی تجویز دی تو کمیٹی کے ایک رکن نے کہا کہ کلام اقبال میں توحید، اخوت، مومن اور ایمان وغیرہ کے الفاظ ہونے کی وجہ سے کلام اقبال اقلیتوں کی نمائندگی نہیں کرسکے گا سو کلام اقبال کے منتخب ٹکڑوں کو رد کردیا گیا۔
اس کے بعد حفیظ جالندھری نے جو ترانہ مقابلے میں لکھا وہ ’اے مرے آباد وطن، آزاد پاکستان‘ تھا جسے کابینہ نے رد کردیا تھا۔ حفیظ جالندھری نے ترانہ ’پاک سر زمین شاد باد‘ بعد میں لکھا۔ شاہ ایران 1950ء میں پاکستان تشریف لائے اور اس موقع پر کوئی اردو یا فارسی ترانہ موجود نہیں تھا لہٰذاصرف دھن بنائی گئی۔ یہ دھن احمد غلام علی چھاگلہ نے کمپوز کی اور اسی پر بعد میں ترانہ لکھوایا گیا۔ شاہ ایران کی پاکستان آمد اور حفیظ جالندھری کے ترانے کا’فارسی‘ میں ہونا بے ربط سی باتیں ہیں کیونکہ 1950ء اور 1954ء میں چار سال کا فاصلہ ہے۔ جگن ناتھ آزاد کی لکھی ہوئی نظم اتنی طویل ہے کہ اگر اسے گایا جائے تو کم از کم بھی پانچ سے چھ منٹ درکار ہیں۔ اس میں وہ نغمگی، موسیقیت، تسلسل اور روانی بھی نہیں ہے جو کہ قومی ترانے یا کم از کم ایک ملی نغمے میں ہوتی ہے۔ اس میں ایسے مشکل الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو موجودہ دور کی اردو میں بالکل مستعمل نہیں ہیں۔ ’سواک‘ اور ’سماک‘ جیسے الفاظ بمشکل ہی لغت میں ملتے ہیں۔ جس طرح جگن ناتھ آزاد کی نظم میں فارسی کے الفاظ موجود ہیں اسی طرح حفیظ جالندھری کے ترانے میں بھی فارسی زبان کے الفاظ موجود ہیں مگر ایسے الفاظ جو عام فہم ہیں اور ان کا مطلب اور مراد سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی‘‘۔
فیضان جعفری نے اپنی کتاب ’’تاریخ قومی ترانہ‘‘ میں پاکستان اور بھارت میں ہونے والے تمام دعوئوں کو فہرست کی صورت میں مرتب کیا ہے بلکہ ان کی کاپیاں تیار کر کے جس اندھا دھند طریقے سے جگن ناتھ آزاد کے اس دعوے کی تشہیر کی گئی ہے ان کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس دعوے کے رد میں ہونے والی اشاعتوں کی فہرست بھی مرتب کی گئی ہے۔ جگن ناتھ آزاد کے دعوئوں، ان میں تضادات اور بتدریج اضافوں کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ کی روشنی میں 14 اگست 1947ء کو ریڈیو پاکستان لاہور (چونکہ جگن ناتھ آزاد کا دعویٰ ریڈیو پاکستان لاہور سے اپنا ’ترانہ‘ سننے کا ہے) کی کارروائی بیان کی گئی ہے۔ پاکستان کے موجودہ قومی ترانے کے انتخاب کے دوران پیش آنے والی مشکلات، رکاوٹیں، اعتراضات اور چار سال سے زیادہ پر محیط پس و پیش پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ حفیظ جالندھری کے لکھے ہوئے پاکستان کے موجودہ قومی ترانے پر فنی اور معنوی اعتراضات اور ان کے جوابات کو قلمبند کیا گیا ہے۔ اس تحقیقی کتاب کے بعد جگن ناتھ آزاد کے دعوے، حفیظ جالندھری پر سازش کے ذریعے اپنا ترانہ منظور کروانے، قائداعظم پر غیر جمہوری انداز میں پاکستانی قوم پر ایک ترانہ مسلط کرنے کے الزامات کا باب ہمیشہ کے لئے بند کردیا گیا ہے۔
فیضان جعفری الخوارزمی
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور
تازہ ترین