• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ارد گرد بے شمار لوگ ایسے ہیں جو خود پر عاشق ہیں۔ یہ خود پسند لوگ ہمہ وقت اپنے قصیدے پڑھنے میں لگے رہتے ہیں ایسے بلند بانگ قصیدے کہ فردوسی بھی ان کے سامنے کورنش بجا لائے، میرے جاننے والوں میں بھی ایسے خود پسند افراد موجود ہیں جن کی ایک بڑی تعداد شاعروں کی ہے، تاہم بنیادی طور پر یہ معصوم لوگ ہیں۔ انہیں دوست بنانے کے لئے آپ کو کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا۔ صرف ان کا موازنہ میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ سے کرنا ضروری ہے، تاہم موازنے کے دوران ذہن سے یہ خیال نکالنا ہو گا کہ ایک دن آپ نے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے حتمی نتیجہ یہ نکالنا ہے کہ میر غالب اور اقبال شاعر اچھے ہیں مگر یہ صاحب ان کے مقابلے میں عصرِ جدید کے تقاضوں سے واقف ہیں، بس اتنا سا کام کرنا ہے اس کے بعد لوگ اپنے علاوہ دنیا کی سب سے عظیم ادبی شخصیت آپ کو قرار دیں گے۔ آپ کے ہزار انکار کے باوجود اپنی بات پر اس وقت تک ڈٹے رہیں گے جب تک آپ اپنی اس بات پر قائم و دائم ہیں جو آپ نے خوفِ خدا سے بیگانہ ہو کر ان کے بارے میں کہی تھی۔

ان کے مقابلے میں وہ لوگ بہت مشکل ہیں جنہیں اپنے حسن اور اپنی شخصیت کے مقابل کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔ ایک صاحب جن سے میں جان چھڑانے کی بہت کوشش کرتا ہوں اور اپنی زندگی کے نوے فیصد جھوٹ ان کی ملاقات کی خواہش کے جواب میں بولتا ہوں، مثلاً میں اس وقت ہتیھرو ایئر پورٹ پر لینڈ کر رہاہوں یا بستر مرگ پر ہوں بس چند سانس باقی ہیںیا ایک میٹنگ کی صدارت کر رہا ہوں مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منا سکتی ہے۔ چنانچہ ایک نہ ایک دن ان کے ہتھے چڑھ جاتا ہوں اور وہ میرے ہاں تشریف لے آتے ہیں آتے ہی وہ مختلف پوز بنانے لگتے ہیں، کبھی سامنے کی طرف کبھی بائیں اور دائیں کی طرف،ان کی پہلی ملاقات میں تو مجھے صرف یہ اندازہ ہوا کہ اپنے حسن کی تعریف کروانا ان کی شخصیت کا حصہ ہے بعد کی ملاقاتوں سے پتہ چلا ایسا شائد نہ ہو مگر وہ اپنے ہر پوز سے اپنے حسن کی جھلکیاں مجھے دکھاتے ہیں اور تعریف کے طالب ہیں۔ چنانچہ میں ایک عرصے تک ان کی دلجوئی کیلئے خود کو ان کے حسن کا اسیر ظاہر کرتا رہا۔ میرے ہر تعریفی جملے کے بعد وہ جیب سے کنگھی نکالتے اور اپنے چند بچے کھچے بالوں بلکہ زلفوں کو سنوارنے لگتے۔ ایک دن کہنے لگے، میرا قد دیکھا ہے، میں نے کہا ہاں دیکھا ہے، بولے ایسا بلند قامت مردآپ نے پہلے کبھی دیکھا؟ میں نے ایک بار پھر ان کی طرف دیکھا ۔ اس چار فٹے شخص کے بارے میں اب میں کیا عرض کرتا، بس میں نے دل پر پتھر رکھ کر انور شعور کا یہ شعر پڑھ دیا؎

صبح وہ جتنی دیر تک باغ میں گھومتا رہا

سروسمن کھڑے رہے گردنیں خم کئے ہوئے

بعد میں بہت دیر تک دل ہی دل میں انور شعور سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی۔ بات صرف یہیں تک ہوتو انسان کی قوت برداشت اس کا ساتھ دے سکتی ہے مگر جب بات زیادہ بڑھ جائے تو صبر جواب دینے لگتا ہے۔ ایک دن کہنے لگے کبھی ذوالفقار علی بھٹو کا نام سنا ہے؟ میں نے کہا جی سنا ہے بولے دیکھا تو نہیں ہو گا، میں نے عرض کی بس ایک دفعہ دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی اس پر ان کے چہرے پر ایک عجیب طرح کا احساسِ تفاخر ہویدا ہوا۔ فرمایا مجھ سے مشاورت کے بغیر وہ ایک قدم بھی نہیں چلتے تھے جنرل ایوب سے بھی میں نے ہی ملایا تھا پھر ان کے خلاف تحریک چلانے کا مشورہ بھی میرا تھا ان کی ساری کابینہ بھی میں نے ہی تشکیل دی تھی ان کے عدالتی قتل کے خلاف احتجاجی تحریک بھی میں نے ہی چلائی تھی۔ اس پر میرا پیمانہ صبر جواب دے گیا میں نے کہا اچھا کیا وہ آپ ہیں ،میں نے تو سنا تھا کہ بطور احتجاج خودسوزی کے دوران آپ جل کر راکھ ہو گئے تھے۔ اس پر انہوں نے قدرے ناگواری کا اظہار کیا اور بولے خود سوزی کی کوشش میں نے ضرور کی تھی مگر موقع پر موجود لوگوں نے مجھ پر کمبل ڈال کر فوراً آگ بجھا دی اور یوں میرے جل مرنے کی آپ کی خواہش پوری نہیں ہوئی۔

ان کی اس اتنی بڑی درفنطنی کے بعد میں ایک عرصے تک انہیں مسلسل نظر انداز کرتا رہا ان کے فون آنے پر میں کبھی امریکہ ہوتا کبھی یورپ اور کبھی بستر علالت پر ہونے کی اطلاع دیتا مگر کب تک؟ ایک دن پھر ان کے ہتھے چڑھ گیا۔ اس بار نواز شریف کو لانے اور گرانے والے بھی وہی تھے عمران خان کو 2018ء میں برسر اقتدار لیکر آئے پھر اپوزیشن والوں سے عدم اعتماد کی تحریک لانے کا مشورہ بھی انہوں نے دیا اور اب عدلیہ بھی انہی کی مشاورت سے سب کام کر رہی ہے۔ میں ان کی ایسی سب باتیں کڑوا گھونٹ سمجھ کر برداشت کرتا رہا ہوں ایک دن انہوں نے عجیب بات کی ’’تمہیں پتہ ہے میرے سانس سے بے حد خوشبو آتی ہے۔‘‘ میں جلا بیٹھا تھا میں نے کہا مجھے تو کبھی تمہارے سانسوں کی خوشبو نہیں آئی یہ سن کر وہ میرے قریب آئے اور اپنے سانسوں کی پھوار میرے ناک پر انڈیل دی اتنی بدبودار سانس کہ میرا دم گھٹنے لگا۔ میں اس وقت اسلام آباد روانہ ہو رہا تھا میں نے ڈرائیور سے کہا جلدی گاڑی تیار کرو اسلام آباد جانا ہے، یہ کہہ کر میں نے اندر سے بیگ اٹھا لیا اور ان صاحب سے اجازت لیکر گاڑی میں بیٹھا تو یہ بھی دوسرے دروازے سے کار میں آگئے اور کہا کیا حسن اتفاق ہے کہ میں بھی اسلام آباد ہی جا رہا تھا اب آپ سے چار پانچ گھنٹے کی ملاقات رہے گی۔ مگر ابھی لاہور کی حدود ہی میں تھے کہ ان کے بدبودار سانسوں نے میرا سفر سفرِ آخرت جیسا بنا دیا۔ بالآخر میں نے ڈرائیور سے کہا ’’میرا حافظہ تو کمزور ہے مگر تمہیں کیا ہوا میں نے آج نہیں کل اسلام آباد جانا تھا گاڑی واپس موڑو۔‘‘

تازہ ترین