• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

”مکہ، مدینہ‘‘ ہر کلمہ گو مسلمان کی محبتوں اور عقیدتوں کا مرکز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان شعور کی زندگی میں قدم رکھتے ہی مکہ مدینہ سے ایک والہانہ رومانوی عشق شروع کر دیتا ہے۔ بڑی بوڑھیاں جب کسی سے خوش ہوں تو اسے مکے مدینے کی زیارت کی توفیق ملنے کی دعائیں دیتی ہیں۔ نعتیں اور مدحیہ کلام بھی حرمین شریفین جانے کے ذوق و شوق میں اضافہ کرتا ہے۔ مسلمانوں کے اپنے مقدس ترین مقامات سے اس عاشقانہ تعلق میں دن بدن تیزی ہی آتی جا رہی ہے۔ یوں تو پاسبان عقل کو ساتھ رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے، لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دینا چاہیے۔ حرمین شریفین کا سفر بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ عشق و محبت اور مہر و وفا کا سفر ہوتا ہے۔ جس طرح عاشق اپنے محبوب کی طلب میں اس طرح مگن ہوتا ہے کہ اسے اپنے آپ کی خبر ہی نہیں رہتی، اسی طرح حج کے سفر میں بھی ہوتا ہے کہ انسان دیوانہ وار صرف دو سفید چادروں میں ملبوس ہو کر ”لبّیک، اللّٰھم لبّیک، لبّیک لاشریک لک لبّیک‘‘ پڑھتے ہوئے عشقِ حقیقی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ اپنے ربّ کی تلاش میں سب کچھ بھول جاتا ہے۔ یہی عاشقانہ ادائیں اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں۔ ہم بھی عاشق ہیں، ہمارا بھی یہی حال تھا۔ ہم بھی ربّ کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ جب ہم نے شعور کی آنکھ کھولی تو ہمارے گھر میں مکے مدینے جانے کی باتیں ہوتی تھیں۔ ہماری نانی ماں ہر ہفتے ہمارے گھر آیا کرتی تھیں، اور ایک رات رہ کر اگلے دن شام کو واپس جایا کرتی تھیں۔ رات کو دیر تک ہم سب بچوں کو مکہ مدینہ کی باتیں سنایا کرتی تھیں۔ گزشتہ ہفتے جو جو باتیں سنائی اور بتائی ہوتی تھیں، ان کا امتحان بھی لیا کرتیں تھیں۔ جو بچہ صحیح صحیح جواب دیتا تو اسے مکہ مدینہ جانے کی دعائیں دیتی تھیں۔ میری باتیں سن کر نانی اماں بہت خوش ہوئیں اور مجھے مکہ مدینہ جانے کی دعائیں دینے لگیں۔لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے حق میں نانی اماں کی وہ سب دعائیں قبول کر لی تھیں۔ یہ 2003ء کی بات ہے کہ میں ایک حادثے میں شدید زخمی ہو گیا۔ دورانِ بیماری میں نے منت مانی کہ اگر اللہ نے مجھے مکمل صحت دی تو عمرہ ادا کروں گا، چنانچہ دو چار ماہ کے بعد صحت یاب ہوگیا تو عمرے کی تیاری شروع کر دی۔ وہ دن آہی گیا کہ میں اپنی فیملی کے ساتھ عمرہ ادا کرنےکیلئے حرمین روانہ ہو گیا۔ 2005ء میں جب میں نے عمرہ کی نیت سے سفر کیا تھا تو بیت اللہ پر پہلی نظر پڑتے ہی ڈھیر ساری دعائیں مانگی تھیں۔ ان دعاؤں میں ایک دعا یہ بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھے فیملی کے ساتھ حج کرنے کی بھی توفیق دے۔ دعا کی قبولیت کے بیسیوں مقامات میں سے ایک مقام خانہ کعبہ پر پہلی نظر بھی ہے۔ میں نے پہلی نظر کے وقت جتنی دعائیں مانگی تھیں، ایک ایک کر کے وہ سب پوری ہوتی چلی گئیں۔ یہاں تک کہ سن 2018ء میں فیملی کے ساتھ حج کرنے کی دعا بھی قبول ہو گئی۔ یہ دنیا اسباب کی دنیا ہے، اور اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے۔ انسان کو دعاؤں کے ساتھ ساتھ اسباب بھی اختیار کرنے چاہئیں، چنانچہ ہم نے حج پر جانے کی منصوبہ بندی بھی شروع کر دی۔ دعا بھی کرتے رہے اور دوا بھی۔ جب بلاوا آتا ہے تو پھر اسباب بھی بننا شروع ہو جاتے ہیں، لہٰذا اسباب بنتے چلے گئے۔ یوں ہم نے عمرے کے 13سال بعد فیملی کے ساتھ حج بھی ادا کیا۔ الحمدللہ! ثم الحمدللہ۔ امسال بھی ہم نے حج کے مبارک سفر پر جانا تھا مکمل تیاریاں تھیں لیکن حکومت کی کوتاہیوں کی وجہ سے مجھے سمیت 67ہزار عازمین اس مبارک سفر سے رہ گئے۔ آپ اندازہ کیجیے، اس مہنگائی کے دور میں لوگ کس طرح پائی پائی جوڑ کر حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بے شک حج کیلئے استطاعت شرط ہے تاہم حج جیسی عاشقانہ عبادت کیلئے اہل دل اپنی استطاعت سے بڑھ کر کوشش کرتے ہیں، اپنی ضروریات کو آگے پیچھے کرتے ہیں، لیکن جب یہ سب کرنے کے بعد ان کو پتا چلتا ہے کہ حکمرانوں کی نااہلی کے باعث وہ اس مقدس سفر پر نہیں جا سکتے تو ان پر جو بیتتی ہے، وہ وہی جانتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اب بھی کوشش کرے اور سعودی حکام سے بات کر کے عازمین حج کی محرومی کا ازالہ کرے۔

تازہ ترین