• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان دس روز سے جاری اور مخدوش تر محسوس ہوتی کشیدگی کم کرنے کی کوششوں میں امریکہ کا سرگرم عملی کردار بدھ کے روز امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اور بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے ٹیلیفونی رابطوں کی صورت میں نمایاں ہوا ہے۔ قبل ازیں صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک جملے سے ا ن کا یہ تاثر سامنے آیا تھا کہ اسلام آباد اور نئی دہلی اس معاملے کو باہمی طور پر سنبھال لیں گے۔ مگر مقبوضہ کشمیر کے لائن آف کنٹرول سے 230کلومیٹر دور واقع پہاڑی علاقے میں دہشت گردوں کے ہاتھوں دو درجن سے زیادہ سیاحوں کی ہلاکت کےانسانیت سوز واقعہ کی تحقیقات کے بغیر فوری طور پر میڈیا کے ذریعے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرا کر، دس منٹ میں ایف آئی آر درج کرکے، وار ہسٹیریا پر مبنی پروپیگنڈہ مہم چلا کر اور اگلے ہی روز سندھ طاس آبی معاہدہ معطل کرنے کے اعلان سمیت بھارت کی مودی سرکار نے جو کیفیت پیدا کی وہ کسی بھی طور پر دونوں ملکوں، خطّے اور عالمی امن کے حوالے سے سودمند نہیں کہی جاسکتی۔ لائن آف کنٹرول گرم تر کرنے اور مقبوضہ کشمیر کی مسلم آبادی کے گھروں کو مسمار کرنے سمیت جو اقدامات جاری ہیں اور بھارت سے آنے والے بیانات میں جن ارادوں کا برملا اظہار شامل ہے وہ متقاضی ہیں اس بات کے کہ صورتحال کو ابتری سے بچانے کی کاوشیں جلد نتیجہ آور ہوں۔ صدر آزاد کشمیر سلطان محمود چوہدری نے ’’قابل اعتماد انٹلیجنس‘‘ کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے بین الاقوامی ثالثی کی جس فوری ضرورت کی طرف عالمی برادری کی توجہ مبذول کرائی ، وہ زیادہ سنجیدگی کی مستحق ہے۔ چین، سعودیہ، قطر، ترکیہ، امارات سمیت کئی ممالک اس باب میں کاوشیں کربھی کر رہے ہیں۔ اب امریکی وزیر خارجہ نے پاکستانی وزیراعظم اور بھارتی وزیر خارجہ سے ٹیلیفونی گفتگو کے ذریعے کشیدگی میں کمی لانے، دوطرفہ رابطے بحال کرنے اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لئے مل کر کام کرنے کی جو بات کی ، اس سے مذکورہ کاوشوں کو تقویت ملی ہے۔ اس ضمن میں یہ بات اہم ہے کہ پاکستان پہلگام واقعہ کی مذمت کرتا، کسی نیوٹرل فورم سے اس کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کرتا اور اس باب میں ہر ممکن تعاون پر آمادگی کااظہار پہلے ہی کرتا رہا ہے۔امریکی وزیر خارجہ سے گفتگو میں وزیراعظم پاکستان نے اسلام آباد کےمذکورہ موقف کے اعادے کے علاوہ بھارت کی آبی جارحیت کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی۔ انہوں نے جموں و کشمیر تنازع کا پرامن حل یقینی بنانے کی ضرورت اجاگر کی جو جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا واحد راستہ ہے۔ دونوں رہنمائوں نے دہشت گردوں کو ان کے گھنائونے پرتشدد اقدامات کا جوابدہ ٹھہرانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ ایسی کیفیت میں، کہ پاکستان اور بھارت کی فوجیں آنکھوں میں آنکھیں ڈالے محسوس ہورہی ہیں، امریکہ سمیت عالمی برادری کی طرف سے کشیدگی کم کرنے کی جاری کوششیں بلاشبہ حوصلہ افزا ہیں ۔مگر پاکستانی قوم اور فوج ملکی سلامتی و بقا کے تقاضے پورے کرنے کے لئے ہر دم مستعد و تیار رہے ہیں اور رہیں گے۔ بدھ کے روز نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور پاک فوج کے ترجمان کی مشترکہ پریس کانفرنس میں اس امر کا اعادہ کیا گیا کہ پاکستان ،جس کا پہلگام واقعہ سے کوئی تعلق نہیں، کشیدگی بڑھانے میں پہل نہیں کرے گا تاہم بھارت نے کوئی کارروائی کی تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ یہ ایسی کیفیت ہے جس میں عالمی برادری کی طرف سے دنیا کے امن کے مفاد میں تیز تر کاوشیں ضروری ہیں۔ توقع ہے کہ بھارت اس صورتحال میں ہوش کا دامن نہیں چھوڑے گا۔ کیونکہ وہ امرسے بے خبر نہیں کہ پاکستان کے خلاف مہم جوئی کن نتائج کی حامل ہوسکتی ہے۔

تازہ ترین