پہلگام واقعہ کے بہانے آبی معاہدے سے بیزاری اور پھر غیرقانونی معطلی ایک جزوی مقصد ہے۔ یہ معاہدہ پہلے ہی معطلی کی کیفیت میں رہا ہے اور بھارت اس معاہدے کو نظرانداز کر کے بارہا پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کا مرتکب ہو چکا ہے۔ یہ تو آزادانہ تحقیقات سے واضح ہو جائے گا کہ پہلگام دہشت گردی کے مذموم واقعہ کا کون ذمہ دار ہے اور پس پردہ کون ہے؟ لیکن افسوس بھارت نے اس سانحہ کو شطرنج کی بساط پر Check Mate کی چال بنا دیا ہے اور اس کی آڑ میں اندرونی، سیاسی، عسکری اور عالمی مفادات سمیٹنا چاہتا ہے۔ عساکر اور عوامِ پاکستان کے ولولہ اور اتحاد سے حیرت ناکیوں میں گم بھارت شاید جنگ شروع کرنے کی جرأت نہ کر سکے لیکن جنگ کی دھمکیوں اور تیاریوں کا غلغلہ بھی علاقائی اور عالمی اُفق پر اثرات چھوڑ رہا ہے۔ اس دوران صوبائی انتخابات کے نتائج بی جے پی کے حق میں ہو سکتے ہیں۔ مسلم دنیا میں اسرائیلی مظالم کے خلاف جو غم و غصہ کی کیفیت ہے، توجہ بٹ سکتی ہے اور مدھم پڑ سکتی ہے۔ چین و دیگر چھوٹے پڑوسی ممالک پر عسکری دھاک بٹھانا، جنگی تقابل کے بہانے اسلحہ کے تاجروں کی ملی بھگت سے بڑے بڑے سودوں کیلئے اپنے اداروں سے منظوری لینا۔ آبی وسائل کی تقسیم اور استعمال میں من مانی کرنا، پاکستان کے سرحدی علاقوں اور بلوچستان میں خوارج کے خلاف مہم کو کمزور کرنا۔ یہ سب مفادات شطرنج کی مذکورہ بالا چال کے بڑے مقاصد ہو سکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انڈس واٹر ٹریٹی کسی بھی فریق کو یکطرفہ منسوخی یا معطلی (Abrogation)کی اجازت نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ 1965ء، 1970ء اور کارگل کی جنگوں کے دوران اس معاہدے بارے کسی بھی متحارب فریق نے دھمکی نہ دی۔ البتہ اختلاف کی صورت میں غیرجانبدار ایکسپرٹ یا ثالثی کونسل سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ معاہدہ سندھ طاس کو کبھی بھی بھارت نے دل و جان سے تسلیم نہیں کیا ہے اور پے دَر پے خلاف ورزیوں سے خبث باطن کا اظہار کرتا رہا ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ حکومت پاکستان نہ صرف پہلگام واقعہ کی آزادانہ تحقیقات کیلئے عالمی اداروں سے باقاعدہ درخواست کرے، تو اسکے پارٹ2 کے طور پر بھارت کی جانب سے آبی جارحیت اور پاکستان میں ماحولیاتی بربادی کیلئے دَراندازی کی تفصیلات بھی فردِ الزام میں شامل کرے، جس میں درج ہو کہ کس طرح بھارت نے انصاف کے عالمی اُصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے نیلم، جہلم، کشن گنگا ڈیم، سلال ڈیم اور دریائے چناب پر اڑیII- ڈیم، رتال، بگلیہار اور وولر بیراج تعمیر کر کے دریائوں اور پانی کا رُخ موڑ دیا ہے۔ جب چاہے اپنے تخریبی مقاصد کیلئے سیلابی دنوں میں پانی چھوڑ کر پاکستان کے کسانوں کی فصلوں، گھروندوں اور زندگیوں کو تباہ کر دیتا ہے اور فصلوں کی بوائی کے دوران ان غیرقانونی ڈیموں کے ذریعے پانی روک کر قحط اور خشک سالی پیدا کر دیتا ہے۔ معاصر صحافی دوست جناب خالد حسنین کی رائے ہے کہ اس فردِ الزام میں یہ انکشاف بھی کیا جائے کہ بھارت دانستہ طور پر مشرقی پنجاب میں ماحولیاتی اصلاح کے اقدامات پر توجہ نہیں دے رہا۔ جس کی وجہ سے بالخصوص پاکستانی علاقوں میں اسموگ جیسی فضائی آلودگی اور ہڈیارہ و ستوکتلہ ڈرین کے ذریعے آبی آلودگیاں اور کثافتیں تباہی پھیلا رہی ہیں۔ دفعتاََ میرے ذہن میں خدشات اُمڈ رہے ہیں، آزادانہ تحقیقات کیلئے ہماری درخواست کے پارٹ1 میں تو یقیناً ہم سرخرو اور بے گناہ ہوں گے، کیونکہ پہلگام دہشت گردی سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ ہاں البتہ پارٹ2میں مذکور ہمارے الزامات میں سچائی کے باوجود ہمیں کہیں ندامت کا سامنا کرنا پڑ جائے اور پانیوں کے بندوبست اور استعمال میں ہماری اپنی ناقص کارکردگی اور نااتفاقی بھارت کے خلاف الزامات کو دھندلا نہ کر دے۔ ہم اپنی نااتفاقیوں اور سیاست کاریوں کی وجہ سے پچھلے ساٹھ سالوں میں پانی ذخیرہ کرنے، توانائی پیدا کرنے اور بے آب و گیاہ بنجر زمینوں کو آباد کرنے کیلئے کوئی ٹھوس اقدام نہ کر سکے۔ ہماری قیادت نے ڈیموں اور آبی توانائی کے پروجیکٹ کے خلاف اور حق میں ووٹروں کی ہمدردی حاصل کر لی، لیکن کوئی مبنی بر حقائق آبی وسائل کا منصفانہ حل پیش نہ کر سکے۔ نتیجتاً آج ہم پانی کی سٹوریج اور بندوبست کے بغیر صاف پانیوں کو سمندروں میں ڈال رہے، ضائع کر رہے ہیں۔ ہماری فیکٹریوں کے 80فیصد بوائلرز میں کھیتوں کی باقیات، زہریلے پلاسٹک، سولڈ ویسٹ اور لنڈے کی آلودہ جرسیوں پر مشتمل ایندھن استعمال ہوتا ہے اور ان چمنیوں سے نکلنے والے زہریلے دھوئیں کو رات کے اندھیروں میں کیموفلاج کر دیا جاتا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ عالمی اداروں کو تحقیقات کے لئے ہماری درخواست کے پارٹ2 کے سلسلے میں اگر تحقیقاتی ٹیموں نے مذکورہ بالا حقائق سے آگاہی حاصل کر لی۔ ہمارے حصے میں بہنے والے ہڈیارہ ڈرین، ستوکتلہ ڈرین کے کناروں پر موجود ہماری فیکٹریوں کے Effluent کو بھی ملاحظہ کرلیا۔ ان آلودہ نالوں میں پیاس بجھاتی بھینسوں اور ملحقہ کھیتوں میں سیراب ہوئی سبزیوں کو ملاحظہ کریں۔ آلودگیوں پر قابو پانے کے لئے ہماری رپورٹوں فرضی Mitigation Plans اور فیکٹریوں کو جاری شدہ مہنگے NOCs کی حقیقت کا ادراک حاصل کر لیا تو ہم سب کو ندامت ہو گی اور یوں پارٹ2 میں موجود بھارت کے خلاف آبی اور ماحولیاتی دراندازی کے الزامات میں سچائی کے باوجود ہم بھی بھارت کے ہمراہ ملزمان کے کٹہرے میں جگہ پائیں گے۔ لہٰذا قرین مصلحت یہی ہے کہ ہم محض پہلگام دہشت گردی کے الزامات بارے تحقیقات پر زور دیں، اکتفا کریں، کیونکہ اس میں ہماری سچائی اور صفائی روزِ روشن کی طرح واضح ہے، ہم سرخرو رہیں گے۔