انگلینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کی گفتگو سوشل میڈیا پر وائرل ہے، وہ طریقۂ تدریس پر بات کرتے ہوئے پُرانے روایتی طریقۂ تدریس اور جدید کلاس روم جس میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے سائنسی بنیادوں پر تعلیم دی جاتی ہے، دونوں کا موازنہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’ہمیں جدت کے باوجود مطلوبہ نتائج کیوں نہ مل سکے؟‘‘۔ وہ اپنی گفتگو میں تفصیل سے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں کہ کس طرح والدین پریشان ہیں کہ وہ چھوٹے بچوں کو ٹیب اور دیگر آلات سے گھر میں دور رکھیں، تب بھی بچے اسکول میں اسکرین کے نقصان سے بچ نہیں سکتے۔ جدید طریقہ تدریس سے پریشان خاتون نے یہ حوالہ بھی دیا کہ ’’سویڈن نے جدید ذریعہ تعلیم کو خیرباد کہہ کر پھر سے پنسل، کاغذ اور استاد کو ذریعۂ تعلیم بنانے کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔میرا خیال ہے کہ آج کا کالم محض یہ اطلاع فراہم کرنے پر محیط نہ رہے بلکہ ہمیں یہ جائزہ لینا ہو گا کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم اپنے مستقبل سے کھیل رہے ہیں یا اسے محفوظ بنانے کی سعی کررہے ہیں؟ بدقسمتی سے ہم مسلمانوں کا وطیرہ بن گیا ہے کہ ہم مغرب کی اندھا دھند تقلید کرکے اپنے معروضی، علاقائی اور ثقافتی حالات کو یکسر نظرانداز کردیتے ہیں، ہمارے اس رویئے نے تعلیمی نظام کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ بدقسمتی سے ہم آج تک نہ تو کوئی ایک پالیسی بنا سکے اور نہ ہی کسی نکتے پر متفق ہوسکے۔ میں عام طور پر اس طرح کے مسائل کے سلسلے میں پروفیسر اجمل خان سے رہنمائی حاصل کرتا ہوں کہ وہ پاکستان کے چند ایسے افراد میں شامل ہیں، جن سے دنیا مہارت حاصل کر رہی ہے۔ کئی ملکوں کے اساتذہ کی ٹریننگ کروانے والے پروفیسر اجمل خان کا بھی یہی خیال ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام بھی بیرونی امداد کو دیکھ کر بنایا جاتا ہے۔
ایک اور ممتاز ماہر تعلیم کہتے ہیں ’’میں بہت پرانی باتیں نہیں کرتا، ماضی قریب ہی سے آپ کو مثالیں دیتا ہوں۔ مثلاً مشرف دور میں جب امریکی ڈالر پاکستان پر نچھاور ہو رہے تھے تو اسی دوران امریکی ماہرین پاکستان آئے، پاکستان کو USAID سے امداد دی گئی تو یہاں بلوم ٹیکسانومی متعارف کروائی گئی۔ ابھی ہمارے اساتذہ کی اس میں تربیت مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس وقت کی پنجاب حکومت نے شہباز شریف کی قیادت میں برٹش کونسل سے معاہدے کرلئےاور سولو ٹیکسانومی، CTPS اور سائکو موٹر ڈومین پر بات ہونے لگی، اس دوران یہ سب بھول گئے کہ تعلیم کے جو بنیادی اصول ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بتائے تھے اس پر پوری دنیا کے ماہرین متفق ہیں ۔ مثال کے طور پر آقائے دوجہاں کا طریقۂ تدریس کتنا موثر اور دیرپا تھا کہ آپ آسان سے مشکل ، known to unknown یعنی جس چیز کا بچے کو پہلے سے علم ہے اسکی مدد سے وہ چیز سکھاؤ جس کا علم نہیں ہے۔ ایک اور چیز مقرون سے مجرد کی جانب سفر ( Concrete to Abstract )۔ ہمارے ہاں اس سے بالکل برعکس ذریعۂ تعلیم اپنایا گیا ۔ مادری زبان بچہ جانتا تھا، اس میں اسے آسانی تھی اور پھر علاقائی اور قومی حوالے زیادہ مقرون تھے ہم نے انگریزی سے مادری زبان کا سفر شروع کیا، مشکل سے آسان کی طرف جانا چاہا کہ بقول منیر نیازی
تھا منیر آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط
اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا
اس پہ طرفہ تماشا کہ ہر دہائی کے بعد ہم ملک میں نیا تعلیمی تجربہ شروع کرتے رہے ۔ کبھی انگریزی زبان کو پکڑ لیا تو کبھی اس بحث میں برس ہا برس گزر گئے کہ ہم بچوں کو کمپیوٹر سے پڑھائیں یا پُرانے طریقہ سے لیکن ہر بار کہ
اُلٹی ہی چال چلتے ہیں دیوان گانِ عشق
آنکھیں بند کرتے ہیں دیدار کےلئے
اس پہ منیر نیازی کا مصرعہ ہی صادق آتا ہے کہ ’’ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں‘‘
جب آئی ٹی کی تعلیم ضروری تھی تو ہم بچوں کو نمبروں کی دوڑ میں الجھا کر انہیں اساتذہ کی پرائیویٹ اکیڈمیوں کا ایندھن بناتے رہے اور جب اسکلز کا دور آیا تو ہم نالج کو پکڑ کر بیٹھ گئے ۔ یکسوئی اور مستقبل بینی کے فقدان کے باعث ہم کوئی پالیسی ہی نہ بنا سکے اور اب جب مغرب جدید طریقہ ہائےتدریس سے بیزار ہوکر کاغذ ، پنسل اور استاد کی طرف لوٹ رہا ہے تو اس وقت ہم بچے کو اس قدر کنفیوژ کرچکے ہیں کہ اب وہ کسی طرف کا نہیں۔ ہمیں اپنے علاقے، تہذیب اور روایات کے پیشِ نظر اپنی مادری زبان میں تعلیم دینی چاہئے مگر یہ ضروری ہے کہ ہمارا نصاب عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق ہو ۔ ہُنر پر زور دیا جائے کہ علم تو اب موبائل فون میں موجود ہے، ایک پالیسی بنا کر اس پر کاربند ہو جائیں ۔ مخلص اور بے لوث ماہرینِ تعلیم کو ایک ٹاسک دیں جو معروضی حالات کے پیشِ نظر نصاب بنائیں اور پھر اساتذہ کی اسی نصاب میں تربیت کی جائے اور پھر اس پالیسی پر گامزن رہا جائے تب جا کر کہیں ہم دنیا میں وجود قائم رکھ سکتے ہیں ورنہ
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
(جاری ہے)