(گزشتہ سے پیوستہ)
آج میں آپ سے قریباً نصف صدی پہلے کی ایک یاد شیئر کر رہا ہوں۔ پشاور میں ایک روز قیام کے دوران درہ آدم خیل کی سیرکیلئے افتخار عارف، عبید اللہ بیگ، محسن احسان، ایوب صابر اور میرے رفیق پروفیسر احمد حسن حامد ایک ”سالم“ ویگن میں بیٹھے اور پھر باریش پٹھان ڈرائیور نے اس کا رخ درے کی طرف موڑ دیا۔ افتخار عارف اور عبید اللہ بیگ ”کسوٹی“ پروگرام کی ریکارڈنگ کیلئے کراچی سے یہاں آئے ہوئے تھے ہماری ان سے ملاقات کنور آفتاب کے کمرے میں اچانک ہو گئی تھی اور ایوب صابر اس پروگرام میں مہمان کی حیثیت سے شرکت کیلئے کوہاٹ سے پشاور پہنچے تو درے سے انہوں نے کوہاٹ چلے جانا تھا اور ہم دوستوں کا پروگرام درے سے واپس پشاور آنے کا تھا۔
قریباً پندرہ بیس میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہماری ویگن آفریدیوں کے علاقے درہ آدم خیل میں داخل ہو گئی آزاد علاقے کی حدود شروع ہو چکی تھیں۔ محسن احسان نے بتایا کہ یہاں پاکستان کا قانون نافذ نہیں ہوتا۔ چنانچہ اگر کسی کو قتل کرکے یہاں پھینک دیا جائے تو پولیس کوئی مداخلت نہیں کر سکتی۔ یہ بات پہلے سے ہمارے علم میں تھی اور ہم اسے یاد کر کے خواہ مخواہ اپنے رونگٹوں کو زحمت ایستادگی نہیں دینا چاہتے تھے سو محسن احسان ہم پہ احسان جو نہ کرتے تو یہ احسان ہوتا لیکن وہ یہ احسان کر چکے تھے۔ ہمیں تو چپ لگ گئی افتخار عا رف نے یہ سن کر مسرت کا اظہار کیا اور محسن سے کہا ”تو پھر ہم کراچی کے کچھ شاعر آپ کے پاس بھیجیں گے۔ آپ براہ کرم انہیں یہاں چھوڑ جائیں“۔
ویگن اپنی منزل کی جانب بڑھتی جا رہی تھی۔ پہلے ہمارے دونوں جانب پہاڑ تھے اب سامنے بھی پہاڑ تھا اور ہم نے پیچھے نظر ڈالی تو سڑک کہیں بیچ میں گم ہو گئی تھی اور وہاں بھی سرسبز پہاڑ کسی غیور پٹھان کی طرح سینہ تانے کھڑے تھے۔ پختون ادیب ایوب صابر نے کہا ”فرنگیوں نے پٹھانوں کو غلام بنانے کیلئے کئی حربے آزما دیکھے۔ مگر وہ اپنی کسی چال میں کامیاب نہ ہوئے یہ جو آپ کو یہاں پکی سڑک نظر آ رہی ہے تو یہ پاکستان کی کرامت ہے دیگر صوبوں کے مسلمانوں کی طرح پٹھانوں کو بھی قیام پاکستان سے بہت فائدہ پہنچا ہے۔ اب یہاں کے لوگ خاصے خوشحال ہیں۔ ا س آزاد علاقے میں اب لڑکیوں کا کالج، ہائی سکول اور لڑکیوں کیلئے ایک پرائمری سکول بھی ہے“۔ میں نے کھڑکی میں سے باہر جھانک کر دیکھا تو نئے اور پرانے ماڈل کی کاریں، سوزوکیاں اور موٹر سائیکلیں فراٹے بھرتی ہوئی ہمارے قریب سے گزر رہی تھیں۔ عبید اللہ بیگ ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر بیٹھے سرگوشی کے عالم میں ایک کھلنڈرے بچے کی طرح پکے کچے گھروندے اور سرسبز و شاداب پہاڑوں کے نظارے میں محو تھا۔ افتخار عارف ہم سفروں کو نئی نسل کے معروف اور غیر معروف شعراء کا کلام سنانے میں مشغول تھے۔ ایسا کرتے وقت انہیں دھڑا یاد نہیں رہتا تھا، صرف اچھا شعر یاد رہتا تھا ادب اور ادیبوں کے ضمن میں بے تعصبی میں نے ذرا کم ہی دیکھی ہے ان کی زبان سے کراچی کے نوجوان اور بعض کمسن شعراء کے یکسر نئی ’’سینسیبلٹی‘‘ کے حامل متعدد اشعار سن کر احساس ہوا کہ یہ شہر ایک بالکل نئی شاعری کی لہر میں ہے! وجد اور سرشاری کے عالم میں اشعار سناتے سناتے وہ ایک دم خاموش ہو گئے۔ انہوں نے ایک نظر بلند و بالا پہاڑوں پر ڈالی جن کے دامن میں کھڑے لوگ بونے بونے سے لگ رہے تھے اور کہا ”عطا بھائی! یہ مولانا احتشام الحق تھانوی اور فیض احمد فیض کیا ہیں؟ جب کوئی نئی حکومت آتی ہے مولانا احتشام الحق امام ضامن اور فیض احمد فیض کلچر پہن کر اس کے حضور پہنچ جاتے ہیں“ اور اس کے بعد انہوں نے دوبارہ اسی سرشاری کے عالم میں شعر سنانا شروع کر دیئے۔تھوڑی دور چلنے کے بعد اچانک یوں محسوس ہوا جیسے چاروں طرف سے لوگ اپنے مکانوں سے نکل کر سڑک پر جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ ان کے گلے میں رائفلیں اور کارتوسوں سے بھری ہوئی پیٹیاں تھیں اور وہ سینہ تانے تیز تیز قدم اٹھاتے کھنچے ہوئے چہروں کے ساتھ ایک ہی جانب رواں تھے۔ ویگن کے باریش ڈرائیور نے خطرے کی بو سونگھی اور کہا ”کچھ گڑ بڑ ہے“ جوں جوں ہم آگے بڑھتے گئے ہمیں دو دو چار چار کی ٹولیوں میں قبائلیوں کے گروہ دکھائی دیتے جن کے چہروں پر ناراضگی کے آثار تھے اور وہ مسلح ہو کر سڑک کے کنارے کنارے چلتے سامنے کی جانب جا رہے تھے بعض ٹولیوں میں ایک ایک دو دو عورتیں بھی تھیں جنہوں نے کھلے کھلے لباس پہن رکھے تھے ایک بڑی حویلی کے باہر سینکڑوں لوگ کھڑے تھے اور انہوں نے اپنی بندوقیں گلے میں ڈالی ہوئی تھیں راستے میں جو قبائلی ہمیں ملے تھے وہ بھی ٹولیوں کی صورت میں جمع ہو رہے تھے ڈرائیور نے یہاں پہنچ کر بریک لگائی اور مجمع میں سے ایک شخص کو پاس بلا کر صورتحال دریافت کی تھوڑی دیر تک وہ دونوں پشتو میں گفتگو کرتے رہے اور پھر ڈرائیور نے ویگن کو اس کی منزل کی طرف ڈال دیا۔
”معمولی بات ہے“ ڈرائیور نے گیئر بدلتے ہوئے کہا ”یہاں ایک گھر میں جوا ہوتا تھا۔ علاقے کے لوگوں نے اسے منع کیا وہ باز آ گیا مگر کچھ دنوں بعد اس نے پھر سے کام شروع کر دیا اس پر لوگوں نے اسے پکڑ کے جرگے کے سپرد کر دیا اب اس حویلی میں جرگہ بیٹھا ہوا ہے اور لوگ فیصلہ سننے کیلئے جمع ہو رہے ہیں“۔ ”آپ کو شاید ایک بات کا علم نہیں ہے“ ڈرائیور نے بات ختم کی تو ایوب صابر نے اپنا بیان شروع کیا ”یہ اگرچہ آزاد علاقہ ہے لیکن یہاں کے قوانین بہت سخت ہیں۔ اس علاقے میں بہت کم زناء کی واردات ہوتی ہے کیونکہ زناء کے مرتکب کو شدید ترین سزا دی جاتی ہے اسے قتل کر دیا جاتا ہے اور بعض صورتوں میں اس کے مکان کو بھی آگ لگا دی جاتی ہے“ ایک بار پھر ویگن میں خاموشی طاری ہوگئی! دریں اثنا ہم درے کے ایک بارونق بازار میں پہنچ گئے تھے۔ (جاری ہے)