کرکٹ اور گرگٹ ملتے جلتے لفظ ہیں ’’ک‘‘ کی جگہ ’’گ‘‘ لگنے سے نہ صرف لفظ بدل جاتے ہیں بلکہ معانی میں بھی زمین آسمان کا فرق پڑ جاتا ہے۔ انگریزی لغت میں کرکٹ ایک ایسے صاف ستھرے کھیل اور طرز زندگی کو کہتے ہیں جس میں کوئی ہیرا پھیری نہیں ہوتی۔ دوسری طرف گرگٹ ایک چھوٹے سے چھپکلی نما جانور کا نام ہے جو افریقہ اور ایشیا میں پایا جاتا ہے۔ اس جانور کی خاص بات اس کا رنگ بدلنا ہے۔ حالات بدلیں تو گرگٹ نیلے اور سبز رنگ کا ہو جاتا ہے۔ رخ بدلنے کی صورت میں یہ پیلا، نارنجی اور سرخ رنگ بھی اوڑھ لیتا ہے۔ مجموعی طور پر گرگٹ کے متضاد رویے کرکٹ کے سیدھے اور صاف شفاف طرزِ زندگی سے متصادم ہیں۔پاک بھارت حالیہ کشمکش میں کرکٹ اور گرگٹ جیسے دونوں رویے نظر آئے۔
گرگٹ جنگلوں میں پایا جاتا ہے ،کشمیر کے جنگلوں میں پہلگام کے مقام پر دہشت گردی کا واقعہ ہوا تو گرگٹ نے فوراً کہا اس معاملہ میں پاکستان ملوث ہے۔ پاکستان نے کرکٹ کھیلی اور کہا کہ وہ شفاف بین الاقوامی انکوائری کروانے کو تیار ہے۔ بھارت نہ مانا اور پاکستان پر حملے شروع کر دیئے اس دوران دنیا کے کئی ممالک نے اپنے طور پر پہلگام واقعہ کی غیر جانبدارانہ انکوائری کروائی۔ اس حوالے سے اندرونی خبر یہ ہے کہ بین الاقوامی انکوائری میں ذمہ داری پاکستان پر نہیں پڑی بلکہ اس کا ذمہ دار کوئی اور نکلا ہے، اس انکوائری کے نتائج پاکستان اور بھارت دونوں تک پہنچائے گئے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ حیرت ناک انکشاف کیا گیا ہے کہ پہلگام دہشت گردی کی جڑیں افغانستان میں موجود پاکستان کے خلاف نبرد آزما طالبان سے ملتی ہیں ۔اس رپورٹ میں کہا گیا کہ حالیہ دنوں میں پاکستان نے افغان طالبان کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے پہلی دفعہ سینکڑوں خوارج کو جہنم واصل کیا گیا ہے، اس دبائو سے تنگ طالبان نے کشمیر میں اپنے پرانے ساتھیوں سے رابطہ کر کے پہلگام دہشت گردی کروائی ۔طالبان کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان اور بھارت میں کشیدگی ہو گی تو پاکستانی فوج کا طالبان پر دبائو کم ہوجائے گا اور وہ بھارتی سرحدوں کی طرف متوجہ ہو جائے گا اور یوں طالبان کو پاکستانی فوج کے دبائو سے آزادی مل جائے گی۔ بین الاقوامی انکوائری کی رپورٹ سے واقعی ثابت ہو رہا ہے کہ اس دفعہ پاکستان نے کرکٹ کھیلی ہے اور پاکستانی موقف میں گرگٹ والا کوئی رنگ نہیں البتہ اس دفعہ بھارتی مودی گرگٹ والے رنگ بدل رہے ہیں وہ کرکٹ نہیں کھیل رہے سراسر نوبال کروا رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے آنے کے بعد سے پہلگام دہشت گردی کے کردار ہی بدل گئے ہیں اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دراصل پہلگام واقعہ پاکستان اور بھارت کے درمیان لڑائی کی ایک کوشش تھی جس کا فائدہ طالبان کو ملنا تھا مگر انکوائری کے بعد سے بیرونی ممالک کی سوچ بدل گئی ہے۔
اس بڑے انکشاف نے جنگ کو ٹالنے اور سیزفائر کی طرف بڑھنے میں مدد دی ہے ایسے موقع پر پھرسے کرکٹ اور گرگٹ کے متضاد رویوں کا سامنا کرنا ہو گا ۔پاکستان اور بھارت کی لڑائیوں پر نظر ڈالیں تو ہماری لڑائیوں میں کرکٹ کا رنگ کم اور گرگٹ کے رنگ زیادہ ہوتے ہیں ہم جنگوں، لڑائیوں اور طعنوں میں تو ماہر ہیں امن کے ضابطے دونوں ملکوں میں نہ ہی مقبول ہیں اور نہ ہی رائج۔ یہاں جنگ باز، جنگ جو اور لڑائی بھڑائی کروانے والے سرحد کے دونوں طرف مقبول ہیں جبکہ دنیا بھر میں جنگ بازوں کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ صلح اور جنگ کے اصول اور معیار قطعی مختلف اور متضاد ہوتے ہیں لڑائی میں طعنے تشنیع حتیٰ کہ جھوٹ چلتا ہے، گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا معمول ہوتا ہے جبکہ کرکٹ جو جناح صاحب کا پسندیدہ کھیل تھا اس کو سیدھے بلے کے ساتھ کھیلا جاتا ہے فائول پلے پر نظر رکھی جاتی ہے کرکٹ کے اصولوں کو پامال کرنے والوں کو سزا دی جاتی ہے اب جبکہ سیز فائر ہو چکا ہے تو پاکستان اور بھارت دونوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ گرگٹ والے کھیل بند کرکے کرکٹ کا سیدھے سبھائو کا کھیل کھیلیں، اس خطے کےایک ارب سے زیادہ لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کیلئے یہ انتہائی ضروری ہے۔
غیر جانبدار حلقوں میں یہ تاثر قائم ہوا ہے کہ پاکستان اور بھارت کی جنگ میں پاکستان فتح یاب ہو گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان اس فتح کو قائم کیسے رکھے؟ کیا ہم بھی بھارتی میڈیا کی طرح بڑھکیں ماریں؟ ہماری ٹی وی سکرینیں بھی نفرت میں چنگھاڑیں؟ میری ادنیٰ رائے یہ ہے کہ ہمیں بھارت کے رویے کی طرح گرگٹ کے رنگ اپنا کر نہیں چلنا چاہئے بلکہ الٹا ہمیں عاجزی اور انکساری اپنا کر صلح اور فتح کے بند مضبوط کرنے چاہئیں، ہمیں رزمیہ اور رجزیہ رویے کے بجائے صلح اور دوستی کا رویہ اپنانا چاہئے ہم دونوں پڑوسی ہیں دنیا میں دوست دشمن بدل سکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں بدل سکتے۔ہم جنگیں لڑتے رہے، نفرت کی آگ کو بھڑکاتے رہے تو نہ بھارت کے لوگ ترقی کرسکیں گے اور نہ ہی پاکستان معاشی خودمختاری حاصل کر سکے گا۔
اگر مودی جی کا بھارت اور جنرل صاحب کا پاکستان کرکٹ کھیلنے پر آمادہ ہو جائیں تو کشمیر، سندھ طاس معاہدہ، دہشت گردی اور معاشی تعاون ہر ایک موضوع پر مثبت پیشرفت ہوسکتی ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر جنرل مشرف کے زمانے کی پیش رفت بحال ہو جائے تو معاملہ حل کے قریب چلا جائے گا ،سندھ طاس معاہدے کو بحال ہونا چاہئے، دہشت گردی کے حوالےسے پاکستان اور بھارت دونوں کو انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی پشت پناہی روکنا ہو گی۔ اصل بات پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت ہے جب تک بھارت سے لیکر سنٹرل ایشیا تک تجارتی راستہ نہیں کھلتا اس وقت تک دونوں ممالک ایک دوسرے سے معاشی فائدہ نہیں حاصل کر سکتے، جب تجارتی راستے کھلیں گے تو یورپی یونین اور آسیان کی طرح پورا خطہ ترقی کرے گا۔ دنیا میں معاشی ترقی کا نیا ماڈل کسی ایک ملک کی ترقی نہیں پورے خطے کی ترقی ہے۔ بات سیزفائر تک نہیں رہنی چاہئے بلکہ تجارتی راستوں تک جانی چاہئے۔ دیرپا امن تبھی قائم ہو گا جب دونوں ملکوں کو معاشی تعاون کے فوائد ملنا شروع ہونگے۔