• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

22 اپریل 2025ء کی شام کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے شمال میں قریب چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سیاحتی مقام پہلگام پر پانچ مسلح افراد نے مذہبی نعرے لگاتے ہوئے حملہ کر دیا۔ سیاحوں سے ان کی مذہبی شناخت دریافت کر کے انہیں عورتوں سے الگ کر دیا گیا اور قریبی فاصلے سے فائرنگ کر کے 26 افراد قتل کر دیے گئے۔ مرنے والوں میں ایک مسیحی سیاح کے علاوہ ایک مقامی مسلمان نوجوان بھی شامل تھا جس نے حملہ آوروں سے ہتھیار چھیننے کی کوشش کی تھی۔ 2019 ءسے کشمیر میں فعال تنظیم The Resistance Front نے ابتدائی طور پر حملے کی ذمہ داری قبول کی لیکن بعد میں یہ بیان واپس لے لیا گیا۔ ستمبر 2016 ء میں اُڑی اور فروری 2019 ءمیں پلوامہ حملوں کے بعد یہ کشمیر میں دہشت گردی کی سب سے بڑی کارروائی تھی۔ حملے کے بعد ہندوستانی فوج، پولیس اور پیرا ملٹری دستوں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ اطلاعات کے مطابق حملہ آور پیر پنجال کی طرف فرار ہوئے۔ ہندوستانی حکام نے قریب پندرہ سو افراد کو تفتیش میں شامل کر کے دس مبینہ دہشت گردوں کے گھر مسمار کر دیے۔ تاہم نہ تو کوئی حملہ آور گرفتار ہو سکا اور نہ کسی کی شناخت بیان کی گئی۔ ایسے میں حملہ آوروں کا پاکستان سے تعلق ثابت کرنا محال تھا تاہم بھارتی حکومت نے فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دی۔ ذرائع ابلاغ میں ایک طوفان کھڑا کر دیا گیا۔ پاکستان نے غیر جانب دار بین الاقوامی تحقیقات کی تجویز پیش کی جسے درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ بھارتی حکومت نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کرنے کے علاوہ سفارتی تعلقات کا درجہ کم کر دیا اور ہر قسم کی تجارت پر پابندی عائد کر دی۔ ردعمل میں پاکستان نے بھارت سے تمام دوطرفہ معاہدے معطل کرنے کا فیصلہ کیا۔ 7 مئی کی رات بھارت نے پاکستان پر آپریشن سیندور کے نام سے متعدد مقامات پر میزائلوں اور ڈرون حملوں سے حملے کیے جن میں سیکورٹی فورسز کے گیارہ افراد سمیت درجنوں شہری شہید ہوئے۔ اس سے اگلی رات پاکستان نے جوابی کارروائی میں ہندوستان کی متعدد فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ بھارتی میزائل اور ڈرون حملوں کو ناکام بنانے کے علاوہ چھ بھارتی طیارے گرائے گئے۔ بھارتی فضائیہ کے لیے شدید ترین نقصان فرانسیسی ساختہ جہاز رافیل اور S۔ 400 سکواڈرن کی ناکامی تھا جس کے بعد زمین سے زمین تک حملہ کرنے والے میزائلوں کے تبادلے نیز نیو کلیائی ہتھیاروں کی نقل و حرکت کے بارے میں اطلاعات نے عالمی رائے عامہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ 10 مئی کی شام اچانک امریکی صدر ٹرمپ کی ایک ٹویٹ نے بتایا کہ دونوں ممالک فوری طور پر سیز فائر کے لیے آمادہ ہو گئے ہیں۔ اس ڈرامائی تبدیلی سے قبل دونوں ملکوں میں کسی براہ راست رابطے کی کوئی خبر نہیں تھی۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے فائر بندی کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب اور ترکیہ کے ذریعے بالواسطہ رابطے دراصل وسیع تر بین الاقوامی گفت و شنید کا حصہ تھے۔ یہ سیز فائر کئی لحاظ سے غیرواضح ہے۔ یہ جاننا مشکل ہے کہ سیز فائر بین الاقوامی سرحد پر ہوا ہے یا اس میں لائن آف کنٹرول بھی شامل ہے۔ سندھ طاس معاہدے اور شملہ معاہدے کے بارے میں دونوں ممالک کا موجودہ موقف واضح نہیں۔ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی دوطرفہ اطلاعات موجود ہیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ دونوں ایٹمی قوتوں نے سرحد پار کیے بغیر جنگ کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے۔ یہ طے نہیں کہ موعودہ مذاکرات کس غیر جانبدار مقام پر اور کب ہوں گے۔ دونوں ممالک اپنی کامیابی کا اعلان کر رہے ہیں۔ اگرچہ بھارتی فضائیہ کی طرف سے اپنے نقصانات کا اعتراف کرنے کے بعد پاکستان میں جوش و خروش کی سطح بلند ہے۔ یہ طے ہے کہ دونوں ملکوں میں داخلی سیاست پر اس کشیدگی کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ بھارت میں مودی حکومت کی ساکھ کمزور ہوئی ہے اور پاکستان کے نیم جمہوری بندوبست میں سیاسی قوتیں مزید غیر اہم ہوئی ہیں۔ دو ہفتے کی اس کشمکش میں پاکستان کی معتوب سیاسی قوت پی ٹی آئی نے غلط حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے خود کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا اچھا موقع ضائع کر دیا ہے۔ اس سے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام بڑھے گا اور غیر سیاسی قوتوں کی گرفت مضبوط ہو گی۔ اس لڑائی کا معاشی پہلو بھی قابل غور ہے۔ بھارت میں 83 ارب ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے لیکن پاکستان کی کمزور معیشت اس نقصان کا معمولی حصہ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ اگرچہ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو کوئی بڑا معاشی نقصان نہیں ہوا لیکن اس اعلان کی حقیقت آئندہ ہفتوں میں بجٹ کے موقع پر واضح ہو گی۔ ایک قابل غور زاویہ یہ ہے کہ چین اور امریکا میں جاری تجارتی لڑائی میں تخفیف کے باوجود عالمی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی صف بندی تبدیل ہو گی۔ بھارت کے پاس موجود یورپی اور روسی ہتھیار اپنا اعتبار کھو بیٹھے ہیں۔ پاکستان کے پاس 80 فیصد ہتھیار چینی ساختہ ہیں جن کی برتری واضح ہوئی ہے۔ چنانچہ اسلحے کی عالمی منڈی میں اہم تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ امریکا کو ٹریڈ ٹیرف میں پسپائی کے بعد اب چین کی عسکری قوت کا بھی بہتر اندازہ ہو گا۔ حالیہ عرصے میں عالمی تبدیلیوں نے پاک بھارت کشیدگی میں نئے زاویے پیدا کیے ہیں۔ اگرچہ کینیڈا اور یورپ میں مقبولیت پسند سیاست کی لہر پیچھے ہٹتی دکھائی دیتی ہے لیکن دو ایٹمی قوتوں میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے سے امریکا میں ٹرمپ کی سیاسی ساکھ بہتر ہو گی۔ ہمارے ملک میں پاک بھارت کشیدگی کو مذہبی رنگ میں دیکھنے والے مٹھی بھر عناصر سے قطع نظر یہ واضح ہے کہ عالمی تنازعات کا فیصلہ نعروں اور تعصبات کی بجائے عسکری طاقت اور حکمت عملی کی بنا پر ہوتا ہے۔ وسیع تر تناظر میں پاک بھارت کشیدگی یوکرین اور غزہ جیسے تنازعات کے تقابل میں ایک جنگ کی بجائے شاید ایک واقعہ ہی کہلائے گی لیکن اس سے خطے کی داخلی سیاست اور عالمی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ لمحہ موجود میں پاکستان نے اپنی سلامتی کا متانت اور کامیابی سے دفاع کیا ہے اور اس کے لیے قومی قیادت کی تحسین کی جانی چاہیے۔

تازہ ترین