بلاشبہ یہ پاکستان اور جمہوریت دونوں کے لئے خوشی، اطمینان اور فخر کی بات ہے کہ قومی صحت کے میدان میں صف اول کا جذبہ رکھنے والی ’’لیڈی ہیلتھ وزیٹرز‘‘ کے جائز حقوق کے حصول کی اٹھارہ سالہ جدوجہد کامیابی کا منہ دیکھنے لگی ہے اور پاکستان کی تمام صوبائی حکومتوں کی جانب سے ان کو آبرومندانہ طور پر ریگولر آئز کرنے کا عندیہ منظر عام پر آیا ہے۔جو یقینی طور پر قومی صحت پر مثبت انداز میں اثر انداز ہو گا۔
لیڈی ہیلتھ وزیٹرز یا ورکرز کا پروگرام وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے 1994ء میں اپنی وزارت عظمیٰ کے دور سے شروع کیا تھا تب سے اب تک اس شعبہ میں شامل اور شریک خواتین اور لڑکیوں نے بہت فرض شناسی اور جرات مندی کے ساتھ صحت عامہ کے مختلف شعبوں میں، دایہ گیری سے لیکر ٹیکے لگانے اور خواتین کو طبی مشورے فراہم کرنے کی مہموں تک اپنی سلیقہ مندی، جرات،بہادری اور قربانی کے کمالات کا مظاہرہ کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی اپنے جائز حقوق کے حصو ل کی جدوجہد بھی بہت سلیقے کے ساتھ جاری رکھی ہے ۔
یقینی طور پر یہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی زچگان اور بچگان کی زندگیاں بچانے کی قابل قدر خدمات کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی خوفناک شرح میں دوتہائی کمی لانے میں کامیابی ہوئی ہے اور زچگان کی اموات کی پریشان کن شرح میں بھی اتنی ہی کمی لانے میں بھی لیڈی ہیلتھ ورکرز کا موثر کردار رہا ہے ۔ بلاشبہ ان شعبوں میں حالات ابھی تک اطمینان بخش نہیں ہیں کیونکہ پاکستان میں ہر سال پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ بچے وفات پا جاتے ہیں اور بچوں کی پیدائش کے دوران مختلف آلائشوں میں مبتلا ہونے والی ایک ہزار میں سے دو سو 76مائیں وفات پا جاتی ہیں اور یہ صورتحال ایک بہت بڑے چیلنج کی صورت میں پاکستان کے صحت کے شعبے کے سامنے کھڑی ہے ۔
’’لیڈی ہیلتھ ورکرز‘‘ کے شعبہ کو ریگولرآئز کرنے کے علاوہ اس شعبے کو قومی سطح پر مزید پھیلانے کی ضرورت بھی محسوس کی جا رہی ہے ۔ اس وقت پاکستان میں 97ہزار چھ سو چالیس لیڈی ہیلتھ ورکرز اور تین ہزار آٹھ سو 43لیڈی ہیلتھ سپروائزرز کام کر رہی ہیں مگر ان کا احاطہ کار صرف ساٹھ فیصد قومی آبادی تک محدود ہے جبکہ اس شعبے کے اہداف کے مطابق سال دوہزار پندرہ 2015ءتک ان کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار تک پہنچ جانی چاہئے اور ان کی رسائی ملک کے تمام پسماندہ علاقوں تک ہو جانی ضروری ہی نہیں لازمی بھی ہے کیونکہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی توجہ اور مدد کا استحقاق سب سے زیادہ ملک کے غریب اور پسماندہ علاقوں اور آبادی کو حاصل ہوناچاہئے ۔
2015ءکے مالی سال کے بعد یہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہو جائے گی وہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کے شعبے کی ترویج و ترقی کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور ان کی تعداد کو تقریباً پانچ لاکھ تک پہنچانے کی کوشش کریں ۔ اس کوشش میں صوبائی حکومتوں کے وسائل کے علاوہ غیر سرکاری رفاعی اور فلاحی اداروں NGOSکے وسائل کو بھی بروئے کار لانے کی ضرورت ہو گی تاکہ قومی سطح کے ایک چیلنج کو موثر انداز میں قبول کیا جا سکے ۔