جنگل میں آئے روز جنگیں، لڑائی جھگڑے اور مقابلے ہوا کرتے تھے۔ انسان اسی لئے جنگلوں کو چھوڑ کر شہروں میں آ بسا کہ جنگوں سے نجات مل جائے مگر جنگوں نے آج تک انسانوں کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ انسان امن اور تہذیب کا خوگر ہو کر بھی کہیں کہیں جنگلی اور کہیں نہ کہیں جنگی ہے۔ ہند سندھ کے جنگلوں میں تو جنگیں آئے روز کا کام ہیں یہاں امن بھی ہو تو درپردہ کبھی پانی، کبھی اسلحہ اور کبھی طاقت کے توازن کی جنگ جاری رہتی ہے۔
جب سے ہند اور سندھ کے جنگل تقسیم ہوئے ہیں تین کھلی جنگیں، کارگل اور پہل گام کی دو محدود جنگیں ہو چکی ہیں۔ سندھ کے جنگل کو تو افغان جنگل سے دو اضافی جنگیں اور بھی لڑنا پڑی ہیں۔ حالیہ تاریخ میں کسی خطے میں اوپر تلے 7 جنگیں کہیں بھی نہیں لڑی گئیں۔ ہند ایک اور لڑائی چینی پہاڑوں سے بھی لڑ چکا ہے اسی لئے کل 8 جنگیں لڑنے کے بعد بھی ہند اور سندھ کی جنگ لڑنے کی پیاس نہیں بجھی، ایک دوسروں کو تباہ کرنے والے یہ دو جنگل خود کشی کی طرف مائل ہیں، جنگ کیلئے ہر وقت آمادہ رہنے والا یہ خطہ جدید دنیا کی نظر میں جنونیوں اور پاگلوں کا علاقہ ہے جہاں دنیا سے ہٹ کر متضاد رویے ہیں۔ جدید دنیا میں عقل اور دلائل سے مسائل حل کئے جاتے ہیں جبکہ ہند اور سندھ میں جنون، جوش اور جنگ سے مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔
ہند سندھ کے جنگل کی حالیہ جنگ میں وادی سندھ کے ببر شیر نے پورے خطے میں اپنا سکہ بٹھا دیا ہے۔ ہندی اژدھا شکست کے زخم سہلاتے ہوئے اپنے حصے کے جنگل کے جانوروں کو یقین دلا رہا ہے کہ وہ ہار انہیں بلکہ وہ ببر شیر سے اب بھی آمادہ پیکار ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ببر شیر کا پلہ بھاری ہے، اژدھا زخمی ہے۔ ببر شیر کے جنگ باز ساتھی اژدھے کو مکمل طور پر مارنے کیلئے اپنی صوتی لاٹھیاں لہرا رہے ہیں اژدھے کو اپنے ہندی جنگل کے چھوٹے زہریلے اور انتہا پسند سانپوں کا بھی سامنا ہے اور لبرل سیکولر کانگریس سے بھی مقابلہ ہے، آخری فیصلہ یہ کرنا ہے کہ زخمی اور کمزور اژدھے کو مار دیا جائے یا سکندر اور پورس کے معاہدے کی طرح کمزور پورس کو دوبارہ سے گدی پر بٹھا کر نیوٹرلائز کر دیا جائے؟ انگریز برصغیر میں آئے تو انہوں نے مقامی جاگیرداروں، گدی نشینوں اور طاقتوروں کو ہی پھر سے نواز دیا حالانکہ وہ چاہتے تو نئے مقامی حکمران پیدا کر سکتے تھے۔
بظاہر ببر شیر کے سامنے مستقبل کی منصوبہ بندی ہو تو دو آپشنز سامنے آ سکتی ہیں۔ زخمی اژدھے کو سیاسی موت آنے دی جائے اور نتیجے کے طور پر ہندی جنگل میں سیکولر اور لبرل کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کو برسراقتدار آنے دیا جائے۔ اس سے ہندی جنگل انتہا پسندی سے نکل کر اعتدال کی طرف جائے گا۔ دوسرا آپشن یہ ہوسکتا ہے کہ زخمی اژدھے کو مزید زخم نہ لگائے جائیں بلکہ اسے مزید پستی سے بچا کر اسی سے مذاکرات کرکے نیا راستہ ڈھونڈا جائے۔ نئی آنے والی طاقتور کانگریس کی حکومت سے مودی کی آج کی کمزور حکومت مذاکرات کیلئے کو زیادہ سوٹ کرتی ہے۔
ہند سندھ کے مذاکرات کی میز کہاں سجے گی؟ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب دونوں نے پیشکش کی ہے کہ دونوں ملک ان کے پاس آکر مذاکرات کر لیں، زیادہ امکان متحدہ عرب امارات کا ہے مگر سعودی عرب بھی آپشن ہو سکتا ہے۔ مذاکرات کا ایجنڈا متوقع طور پر سندھ طاس معاہدہ، دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کا طریق کار، سیز فائر، شملہ معاہدہ کی بحالی وغیرہ پر مشتمل ہو گا۔ سیز فائر کروانے اور امریکہ کواس معاملے میں کردار ادا کرنے کے حوالے سے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے نے اہم ترین رول ادا کیا۔ امریکی نائب صدر ڈی جے وانس اور امریکی وزیر خارجہ مائیک روبیو نے سب سے زیادہ متحرک کردار ادا کیا۔ امن تجاویز کے حوالے سےکہا جا رہا ہے کہ اس جنگ یاجھڑپ سے پہلے پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز (ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن) کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں تھا اب آپس میں رابطہ بحال ہو چکا ہے بلکہ نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کا بھی مسلسل رابطہ ہے۔ انٹرنیشنل ذرائع نے تجویز کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک مستقل بیک چینل ہونا چاہئے جس کے ذریعے کسی بھی پیچیدگی کی صورت میں اسے اس فورم پر زیر بحث لایا جا سکے۔ دوسری طرف دونوں ملکوں کو شدید خود احتسابی کی بھی ضرورت ہے بھارت کو بی ایل اے اور طالبان کے ذریعے پاکستان کے اندر شورش برپا کرنے کی روش ختم کرنا ہو گی اور اس حوالے سے پاکستان کو یقین دلانا ہو گا کہ بھارت اب اس طرح کی سرگرمی میں ملوث نہیں ہو گا۔ دوسری طرف پاکستان کی جہادی تنظیموں کے حوالے سے عالمی ساکھ بہت بری ہے کیونکہ ماضی کے کئی واقعات میں واقعی جہادی تنظیمیں ملوث تھیں اب ریاست کو جہادی تنظیموں کی حمایت اور سرپرستی سے دور رہنا چاہئے اب تک کی اطلاعات کے مطابق کشمیر اور بھارت میں متحرک جہادی تنظیموں نے دوبارہ سے متحرک ہونے کی کئی کوششیں کی ہیں لیکن انہیں سختی سے ناکام بنا دیا گیا ہے بلکہ ایسا ظاہر ہو رہا ہے کہ نان سیٹ ایکٹرز پر پابندیاں مزید سخت کی جائیں گی اور انہیں کوئی ایسا موقع نہ دیا جائے گا کہ جس سے وہ پاک بھارت تعلقات خراب کر سکیں اور نہ دنیا میں پاکستان کی ساکھ تباہ کر سکیں!
پاک بھارت سیز فائر کے بعد دونوں ملکوں میں دہشت گردی کی سپانسر شپ سے ہاتھ اٹھائے جانے کا قوی امکان ہے اگر مذاکرات نے سنجیدہ شکل اختیار کی تو پاکستان اس بات کی مکمل ضمانت دے گا کہ پاکستان ایسی کسی سرگرمی میں ملوث نہیں ہوگا اور وہ ایسے واقعے کی پہل گام کی طرح بین الاقوامی انکوائری کروانے پر بھی تیار ہوگا اور پاکستان چاہے گا کہ بھارت بھی دہشت گرد تنظیموں کے حوالے سے ایسی ہی ضمانت دے۔