• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرنا بھارت کے لیے اتنا آسان نہیں جتنا اس کی خام خیالی ہے۔یہ پاکستان کی لائف لائن ہے اور اس کا دو ٹوک موقف ہے کہ اس میں کسی بھی طرح کی یکطرفہ چھیڑ چھاڑ کی گنجائش نہیں۔سندھ طاس معاہدہ 1960ءمیں پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی ثالثی کی زیر نگرانی طے پایا تھا جو تقریبا 65 سال سے موثر ہے جسے بھارت نے پہلگام واقعہ کی آڑ میں 23 اپریل کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔پاکستان نے اس اقدام پر ایک احتجاجی خط میں بھارت پر واضح کیا کہ معطلی سے متعلق استعمال کیے گئے الفاظ کا معاہدے میں وجود ہی نہیں۔عالمی بینک نے بھی بھارتی موقف مسترد کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کر سکتا۔بینک کے صدر اجے بنگا کا کہنا ہے کہ معاہدے میں اسے یکطرفہ معطل یا ختم کرنے کی کوئی شق ہی نہیں ہے البتہ معاہدے میں تبدیلی یا اسے ختم کرنے کے لیے دونوں ملکوں کامتفق ہونا ضروری ہے۔اسکے لیے شرائط معاہدے میں موجود ہیں۔بھارت نے تکنیکی طور پر معاہدہ التوا میں ڈالا ہے۔معاہدے کے طے شدہ طریقہ کار کی پاسداری ضروری ہے تاہم ان کایہ کہنا تھاکہ بینک کو یہ اختیار نہیں کہ وہ پاک بھارت تنازعات میں کوئی فیصلہ یا مداخلت کرے۔اس کا کام صرف یہ ہے کہ جب دونوں فریق درخواست دیں تو غیر جانبدار ماہرین یاثالثی کے پینل کا تقرر کرے تاکہ اختلافات کو حل کیا جا سکے۔عالمی بینک کی اس صراحت کے بعد بھارت کی جانب سے معاہدے کی یکطرفہ معطلی کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔یہ معاہدہ مکمل طور پر نافذ العمل اور اس کی خلاف ورزی ناقابل قبول ہے۔یجہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ ہے تاکہ پانی کے مسائل پر کوئی جنگ یا تنازع نہ ہو۔یہ ایک بین الاقوامی ذمہ داری ہے جس کی پاسداری فریقین پر لازمی ہے۔

تازہ ترین