• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے حکمران منتخب یا غیر منتخب اپنے آپ کو سودے باز کہنے سے گریز کرتے تھے حالانکہ وہ کرتے سودے بازی ہی تھے۔ اب 2025میں امریکی عوام نے ایسا کھرا گورا اپنا صدر منتخب کیا ہے جو اپنی سودے بازی کی صلاحیتوں پر فخر کرتا ہے۔ صدارت سنبھالنے کے بعد پہلے دورے پر خلیجی ریاستوں کیلئے نکلتا ہے تو برملا کہتا ہے کہ میں اپنی سودے بازی کی صلاحیتوں کو آزمانے چلا ہوں۔ تین ایسے ملکوں کا انتخاب کیا، جو سارے مسلمان ہیں آبادی کم ہے دولت بہت زیادہ۔ جہاں سڑکیں سونے کی ہیں جہاں قدرت نے چھپڑ پھاڑ کر خوشحالی بخشی ہے۔ 78 سالہ ٹرمپ اقتصادی مسائل میں الجھے امریکہ کیلئے دولت سمیٹنے نکلے ہیں۔ یوں کہہ لیجئے کہ دنیا کے سودے باز اعظم خلیج کے حاتم طائیوں کی سخاوت میں سے اپنا حصہ وصول کرنے ریاض، دوحہ، ابوظہبی کے طلسم کدوں میں اترے ہیں۔ عین اس وقت ٹرمپ کی 31سالہ پوتی ٹفنی اریانہ ٹرمپ نے ایک بیٹے کو جنم دیا ہے۔ وقت کی مناسبت سے اس کا نام سکندر Alexander رکھا گیا ہے۔ ٹرمپ مقدر کے سکندر تو ہیں۔ ان کی چال ڈھال بھی یقینا ًسکندری ہے۔ ریاض پہنچنے پر یو ایس اے ون کی کھڑکی سے 39سالہ شہزادہ محمد بن سلمان کی جھلک دیکھنےپر ٹرمپ نے جیسے مٹھی لہرائی اس وقت وہ 78 سالہ نہیں 18 سالہ لگ رہے تھے۔ یہ دورہ چار دن کا تھا جس میں وہ کئی ٹریلین ڈالر کے سودے کر گئے۔ سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات، قطر کے حکمران تو پھولے نہیں سما رہے۔ قبائلی چشمک تو صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ لیکن یہاں امریکی صدر کے استقبال میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی دوڑ بھی تھی۔ ہر ایک نے اپنے قبیلے کی روایات اور ثقافت کا مظاہرہ بھی کیا۔ ٹرمپ نے کامیاب سودوں کی خوشی میں سفید عربی گھوڑوں، لگژری قطری بوئنگ اور ابوظہبی میں ال ایالہ رقص دیکھ کر ’’آئی لو اٹ‘‘ ضرور کہا۔ عرب اپنی مہمان نوازی کی شہرت تو صدیوں سے رکھتے ہیں اور جب ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا صدر مہمان ہو تو صرف تجوریوں کے منہ ہی نہیں دارالحکومتوں کے دروازے بھی وا کر دیے جاتے ہیں۔ خلیج میں یہ چار دن ڈالروں درہموں کی بارش ہوتی رہی۔ زلفیں لہراتی رہیں۔ عربی گھوڑے خرام ناز کرتے رہے۔ ہمارے ہاں چار دن ڈرونوں،طیاروں، میزائلوں کی زد میں گزرے۔ ٹرمپ جی نے اپنے چار دن کے سودوں کو منافع بخش بنانے کیلئے جنوبی ایشیا میں جنگ کو بھی چار دن سے آگے نہیں جانے دیا تھا ورنہ ابھی تک ڈرون بازی ہو رہی ہوتی۔ جنوبی ایشیا والے دوسروں کی جنگیں بڑے شوق سےلڑتے ہیں۔ ان کے کہنے پر ہتھیار اٹھاتے ہیں اور ان کے کہنے پر ہتھیار ڈال بھی دیتے ہیں۔ چار دن سب کو ملتے ہیں کچھ ہنس کر گزار دیتے ہیں اور ہم جیسے رو کر۔ سیماب اکبرآبادی کہہ گئے ہیں:

عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

34 کروڑ 72 لاکھ آبادی والی سپر طاقت کے صدر تین کروڑ 45 لاکھ والے سعودی عرب، صرف 31 لاکھ والے قطر اور صرف ایک کروڑ 13لاکھ والے متحدہ عرب امارات سے کتنے ٹریلین ڈالر کے سودے سمیٹ کر لے گئے ہیں۔یہ یقیناً انکی سودے بازی کی مہارت ہے اور وہ فخر سے کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ سودے بازی اپنے والد سے سیکھی۔ گزشتہ الیکشن سے قبل ان کی 20سے زیادہ کتابیں سودے بازی سے متعلق ہی دھڑا دھڑ بک چکی تھیں۔ ان میں سب سے زیادہ مقبول بھی: The art of the deal ہی رہی جو 1987میں شائع ہو کر 13 ہفتوں تک سب سے زیادہ بکنے والی کتاب رہی تھی۔

میرے نزدیک ان چار دنوں میں سب سے اہم دورہ قطر کا رہا ہے۔ سیاسی فوجی مالی ہر اعتبار سے۔ قطر سے ہمارے حکمرانوں کے بھی قریبی تعلقات ہیں۔ یہ اب ایشیا میں امریکہ کا سب سے بڑا اور حساس فوجی اڈہ ہے جہاں سے ہونے والی کارروائیوں کو 2003تک خفیہ رکھا گیا۔ یہیں سے امریکہ طالبان کو نشانہ بنانے کیلئے طیارے اڑاتا رہا۔ عراق کی جنگ کے دوران بھی استعمال ہوا۔ اس اڈے پر قطر نے آٹھ بلین ڈالر خرچ کیے۔ امریکہ اسے اب شمال مشرقی افریقہ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کیلئے استعمال کرتا ہے۔ قطر کے 44سالہ امیر تمیم بن محمد ثانی امریکہ کے معتمد خاص ہیں۔ اپنی روایت کے پابند ان عرب قبیلوں میں آپس میں ٹھنی بھی رہتی ہے مگر امریکی صدر اس کشمکش سے ہی تجارتی فائدے اٹھا رہے ہیں۔سودے باز جو ہوئے۔ امریکی فوجی اڈے ’’العدید‘‘ پر ٹرمپ نے رقص فرما کر امریکی فوجیوں کا دل بھی لبھایا۔ قطر امریکی اسلحے کے سب سے بڑے خریداروں میں سے ہے۔ العدید پر دنیا کے طویل ترین رن وے ہیں۔ یہ امریکی سینٹرل کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ 1996میں تعمیر کردہ اس اڈے پر 21ویں صدی میں عام طور پر 10 ہزار سے زیادہ امریکی فوجی موجود رہتے ہیں ۔ اور قریبٔا 100امریکی لڑاکا طیارے بھی یہاں کسی کارروائی کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا اور قیمتی تحفہ بھی امریکی صدر کو قطر نے ہی دیا ہے۔ لگژری بوئنگ،8. 747جس کی قیمت 400ملین ڈالر ہے۔اس تحفے پر کانگریس اور سینٹ والے اخلاقی قانونی اعتراضات کر رہے ہیں مگر دبنگ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ یقیناََ بڑے ا حمق ہوں گے اگر یہ تحفہ قبول نہ کریں۔ قطر ایک چھوٹا ملک ہے مگر اس کا دل بہت بڑا ہے۔ اسے اب یہ نوید ملی ہے کہ امریکہ مزید 10سال تک اس اڈے کو استعمال کریگا۔ اس سے ہم جنوبی ایشیا والوں کو بھی اندازہ کر لینا چاہیے کہ یہ عشرہ کیسا گزرے گا۔

اس دورے کے آخر میں ال ایالہ رقص نے تاریخ کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی ہے جب ابوظہبی کے 64 سالہ صدر محمد بن زید النہیان اپنے مہمان کو لے کر قصر الوطن آ رہے تھے تو بچیاں سفید لباس میں دائیں بائیں کھلی زلفیں لہرا کر الایالہ پیش کر رہی تھیں۔ ایال گھوڑوں کے شانے پر لہراتے بالوں کو کہا جاتا ہے۔ اردو شاعری میں اس پر بہت سے اشعار بھی ملتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور مسقط کا یہ روایتی رقص عام طور پر لڑکے لڑکیاں پیش کرتے ہیں۔ ٹرمپ اس سے بھی متاثر ہوئے اور انہوں نے کہا I love it۔

عزت مآب سودے باز اعظم چار روزہ کامیاب دورے کے بعد وائٹ ہاؤس پہنچ چکے ہیں۔ ٹرمپ نے امریکی صدور کی اس مسلسل روایت سے گریز کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے دورے میں اسرائیل کی مرکزی حیثیت ہوتی تھی۔ آغاز اسرائیل سے ہوتا تھا۔ دورے کی سمت کا تعین تل ابیب میں کیا جاتا تھا اب کے تل ابیب کو دورے میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ یہ کوئی سفارتی عسکری چال ہے یا ٹرمپ نے طاقتور یہودی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

تازہ ترین