• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، عرب ملکوں کی یاترا کے بعد امریکہ واپس جا چکے ہیں، امریکہ جاتے ہی انہوں نے عربوں سے متعلق جو کہا ہے، وہ شاید عربوں کیلئے کچھ خوش کن نہیں حالانکہ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات نے ڈونلڈ ٹرمپ پر ڈالروں کی بارش کی، خوشامد کی انتہا کردی اور ٹرمپ کی خوشی کیلئے اپنی روایات تک کو بھلا کر پسِ پشت ڈال دیا مگر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ جاتے ہی وہ سب کچھ بھول گئے، یا شاید یہ عربوں کی بھول تھی، اگر عرب اپنی روایات کو زندہ رکھتے تو نتائج مختلف ہوتے مگروہ روایت ہے نا کہ اقتدار کی تمنا ذہن کو غلامی تک لے جاتی ہے اور دلوں کو پژمردہ کر دیا کرتی ہے۔ کاش! عرب حکمران ٹرمپ کا اس طرح سے استقبال نہ کرتے، کوئی انہیں بتاتا کہ ایک صدی پہلے ایک بڑے مسلمان مفکر شاعر ڈاکٹر علامہ اقبال نے کہا تھا کہ اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر/خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی / ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار/ قوت مذہب سے ہے مستحکم جمعیت تری /دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں/ اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی ۔

سینیٹ کے رکن اور مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس ایرانیوں کے انقلابی سفر کی داستان سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’انہیں ایرانی رہبر سید علی خامنہ ای نے بتایا کہ ہم شاہ ایران کے دور میں جیلوں میں اقبال کی شاعری گنگناتے تھے، اقبال ہی تو ہے جس نے انقلاب ایران کی پیش گوئی اپنی شاعری کے ذریعے کی اور اس نے کہا کہ ایران میں ایک مرد مومن غلامی کی زنجیریں توڑ دے گا، سو شاہ کے دور میں ایرانی جیلوں میں قید انقلابیوں کی ٹولیاں اقبال کے اشعار پڑھتی تھیں۔‘‘ ہمارے ہاں پاکستان میں اقبال شناسی ہونی چاہیے تھی مگر یہاں اقبال کی شاعری سے رہنمائی حاصل ہی نہیں کی گئی، اقبال نے ایک صدی پہلے مشرق کی حقیقت پر بہت زور دیا اور مغرب کی دو رخی کو بے نقاب کیا، اسی لئے تو اقبال نے فلسطین کے حوالے سے کچھ باتیں کیں، اقبال نے کہا کہ ’’زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ/ میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے/تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں/ فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے/ سنا ہے میں نے، غلامی سے امتوں کی نجات/ خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے‘‘ اقبال کو امت مسلمہ کا درد کس قدر تھا، ان کی شاعری اس بات کی گواہ ہے، وہ انسانوں کی بیداری کیلئے فکر مند رہے، وہ مشرق کی عظمت کے قائل تھے، انہوں نے مغرب کی دوہری چالوں کو بے نقاب کیا، انسانوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کو بیان کیا، ملت کے درد سے شناسا اقبال نے کہا کہ

’’کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں/ مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز‘‘ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں چین نے جس طرح پاکستان کا ساتھ دیا ہے، اس پر دوستی کے سارے پھول نچھاور کرنے کو جی چاہتا ہے، چینیوں نے صرف دعوے نہیں کیئے بلکہ دعوؤں کو پورا کر کے دکھایا ، صرف وعدے نہیں کیے بلکہ وعدوں کی تکمیل کر کے دکھائی اور دنیا کو بتا دیا کہ چین دوستی کیا دوستی ہے، اس دوستی کے مشکل راستوں میں بھی محبت کی چاشنی شامل ہے، اقبال نے چینیوں کی حقیقت کا ادراک کتنا عرصہ پہلے ہی کر لیا تھا، اقبال نے کہا تھا کہ’’ گیا دور سرمایہ داری گیا/ تماشا دکھا کر مداری گیا /گراں خواب چینی سنبھلنے لگے/ ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے‘‘ صاحبو! طاقت کا توازن پلٹ رہا ہے، طاقت مغرب سے مشرق کو شفٹ ہو رہی ہے، اب طاقت ایشیاء میں ہو گی، ایشیاء وہ بر اعظم ہے جہاں تمام الہامی اور غیر الہامی مذاہب کی پیدائش ہوئی، ایشیاء کی آبادی سب براعظموں سے زیادہ ہے، ایشیاء میں معدنیات کے خزانے ہیں، ایشیاء میں تمام موسم ملتے ہیں، ایشیاء میں فطرت کے سارے رنگ موجود ہیں۔ پہاڑ، دریا، میدان، صحرا۔ ایشیاء کی کوئی کوکھ فطرت کی رعنائیوں سے خالی نہیں،ایشیائی ہنر مند باقی دنیا سے آگے ہیں، ان کی مہارت بھی بہتر ہے، کیا دنیا نے پاکستانی پائلٹس کی مہارت نہیں دیکھی؟ کیا بموں سے برباد ہونے والا جاپان آگے نہیں نکلا؟ چین معاشی لحاظ سے تو سب سے آگے تھا ہی، اب اس نے ثابت کیا ہے کہ وہ جنگی ٹیکنالوجی میں بھی سب کو مات دے چکا ہے۔ اسی لئے تو آج ’’وار اکانومی‘‘پہ بھروسہ کرنے والے پریشان ہیں کہ ان کا کام کیسے چلے گا؟ اسی پریشانی میں وہ ایک طرف عربوں سے بہت سا سرمایہ لے گئے ہیں تو دوسری طرف مودی کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتے۔

تازہ ترین