بلوچستان کے ضلع خضدار میں آرمی پبلک اسکول کی بس پر خود کش دہشت گرد حملے میں ابتدائی اطلاعات کے بموجب 4معصوم بچوں سمیت 6افراد کی شہادت اور 52افراد کے زخمی ہونے کے دل دوزواقعہ نے پاکستانیوں کو غم و یاس سے اور دنیا بھر میں اعلیٰ انسانی اقدار عزیز رکھنے والے حلقوں کو اندیشوں میں مبتلا کیا ہے۔ جنوبی ایشیاکے حالیہ جنگی منظرنامے میں کیا ہی اچھا ہو کہ اقوام متحدہ کا ادارہ امن کوششوں میں زیادہ فعال نظر آئے اور اہم عالمی ممالک پس پردہ رابطے اور دوسرے ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے صورتحال کو گمبھیر تاسے بچانے میں کردار ادا کریں۔ تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بدھ کی علی الصبح آرمی پبلک اسکول خضدار کی بس کو ایک چھوٹی گاڑی کی ٹکر سے 30کلوسے زائد بارود کے دھماکے کا نشانہ بنایا گیا جس کی شدّت سے بس الٹ کر آگ کا شکار ہوگئی۔ سیکورٹی اہلکاروں اور امدادی کارکنوں نے بروقت پہنچ کر بچوں کو نکالا، 14زخمی بچوں کو بذریعہ ہیلی کاپٹر کوئٹہ منتقل کیا گیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان اور کورکمانڈر کوئٹہ کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہداء میں دوفوجی جوان بھی شامل ہیں۔ امریکہ، چین اور اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کی طرف سے دہشت گردی کے اس واقعہ پر مذمتی بیانات کا سلسلہ جاری ہے جبکہ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے ہنگامی طور پر کوئٹہ کا دورہ کیااور زخمیوں کی عیادت کی۔وزیراعظم اور آرمی چیف کے بیانات لمحہ موجود کا یہ تقاضا اجاگر کر رہے ہیں کہ قوم غیر ملکی حمایت یافتہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اس کے منطقی اور فیصلہ کن انجام تک پہنچائے اور بھارتی جارحیت کے خلاف حال ہی میں ظاہر کئے گئے مضبوط عزم کا بھرپور مظاہرہ کرے۔قومی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی طرف سے خضدار دہشت گردی پر مذمتی قرارداد کی منظوری سے قبل جن خیالات کا اظہار کیا گیا ان سے یہ تاثر نمایاں ہے کہ دہشت گردی کے تانے بانے بھارت سے ملتے ہیں۔ اگرچہ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان کی طرف سے خضدار واقعہ کی مذمت اور اس سے لاتعلقی کا سامنے آنے والا اظہار نئی دہلی کے اس رویّے سے مختلف معلوم ہوتا ہے جو جعفر ایکسپریس پر حملے سمیت دہشت گردی کی متعدد سنگین وارداتوں کے وقت نظر آیا۔مگر سامنے آنے والے متعدد شواہد یہ واضح کر رہے ہیں کہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے ہولناک سانحے کے منظر کا یہ دہرائو بھارتی پشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ بھارت کی عسکری جارحیت کے حالیہ واقعات کے بعد سیکورٹی ذرائع سمیت مختلف حلقوں کی طرف سے خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ بھارت کو حالیہ مہم جوئی میں ملنے والی ہزیمتوں اور مودی سرکار کے بڑے دعووں کی ناکامی کی صورت میں نمایاں ہونے والی خفت مٹانے کے لئے پاکستان میں بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردی کے واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔ مگر یہ توقع نہیں تھی کہ عالمی رائے عامہ کے موجودہ منظر نامے میں دشمن معصوم بچوں کو ہدف بنائے گا۔اس میں شبہ نہیں کہ ملک کے بڑے شہروںاور دیگر حساس مقامات کی سیکورٹی پر عسکری اداروں کی ہر لمحے رکھی گئی گہری نظر کے باعث دہشت گردی کے متعدد منصوبے ناکام بنائے جاچکے ہیں جن میں مسرور ایئر بیس پر حملے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گرد وں کو وار کرنے کے مواقع مل جاتے ہیں جبکہ بھارت سے آپریٹ کئے جانے والے دہشت گرد گرو پ کو بڑے پیمانے پر خونریزی کے احکامات کی وڈیوز ، پاکستانی قید میں موجود سرغنہ کلبھوشن یادیو اور اسی ماہ گرفتار دہشت گردی نیٹ ورک کے کنٹریکٹر مجید لاکھو اور اسکے ساتھیوں کے بیانات کی صورت میں اسلام آباد کے پاس اہم شواہد ہیں ۔اس منظر نامے میں سیکورٹی اور انٹلیجنس امور مزید توجہ کے متقاضی ہیں جبکہ ڈوزئرز، وفود کے دوروں اور سفارتی سرگرمیوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے۔