اسٹیٹ بنک کے ذرائع نے حالیہ دنوں میں زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر کی موجودہ مالیت 16ارب64کروڑ85لاکھ ڈالر بتائی ہے۔گزشتہ پانچ چھ برس کے عرصے میں ،بالخصوص اس دوران جب معیشت دو مرتبہ دیوالیہ پن کو پہنچی ،اس کے مقابلے میں موجودہ صورتحال بڑی حد تک اطمینان بخش ہے،تاہم واجب الادا غیر ملکی قرضوں کا حجم74ہزار ارب روپے سے بڑھ گیا ہے ،جن کی سود سمیت اقساط کی ادائیگی ،خصوصاً وفاقی بجٹ کی تیاری میںحکومت کیلئےایک بڑا چیلنج ہے۔عالمی مالیاتی ادارہ(آئی ایم ایف)کی رابطہ ڈائریکٹر نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان نے قرض پروگرام کیلئے جملہ شرائط پوری کرتے ہوئے تمام اہداف مکمل کرلیےہیں، معاشی اصلاحات میں بھی مثبت پیش رفت ہوئی ہےاور اب تک کی مدت کے دوران حکومتی کارکردگی ایسی رہی کہ اسے قرضے کی قسط جاری کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔اس ضمن میں یہ واضح رہے کہ خسارے کے بجٹ کی بڑی وجہ محاصل کا پورا نہ ہونا اورغیرمعمولی غیر ملکی قرضوں کا حکومت پر بوجھ ہے۔حکومت کی خواہش ہے کہ ملازمین کی تنخواہوں میںاضافہ کیا جائے ،جسے آئی ایم ایف نے سرکاری اخراجات میں کمی لانے سے مشروط کیا ہے۔تازہ ترین اپ ڈیٹس کے مطابق ہفتے کے روزمذاکرات کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے ،جس میں عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سےمہنگائی کی شرح کو پانچ سے سات فیصد پر لانے اور ٹیکس آمدن بڑھانے پر زور دیا گیا ہے۔ معاشی ماہرین ان ضروریات کو پہلے سے محسوس کررہے ہیں۔گزشتہ بجٹ میںٹیکس خسارہ ملازمت پیشہ طبقے سے پورا کیا گیا تھا،جس سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔سرکاری اور نجی شعبہ سے وابستہ ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوںمیں اضافے کو وفاقی بجٹ میں اولیت دی جانی چاہئے،جس کیلئے سب سے مناسب طریقہ متعلقہ محکموں اور اداروں سے رشوت اور بدعنوانی کا خاتمہ ہے۔