• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت اپنے پاکستان دشمن روڈ میپ پر عمل درآمد کر رہا ہے۔ بلوچستان میں پھر مداخلت کر دی ہے ہم بہت سی جانیں نہیں بچا سکے۔ ہم اپنا قومی ریاستی روڈ میپ نہیں بنا رہے۔ ویسے ہم عجلت میں ہیں بہت سے کام جو بعد میں ہو سکتے ہیں وہ فوری کر رہے ہیں۔ قوم کا غالب حصہ ایک ساتھ ہے مگر حکمرانوں کی طرف سے قوم کیلئے کوئی راحت بخش منصوبہ سامنے نہیں آ رہا۔ اس فتح کا منطقی تقاضہ یہ بھی تھا کہ عوام کیلئے تعلیم، صحت، زراعت اور شہری زندگی میں سہولتوں کے صوبائی اور وفاقی اعلانات کئے جاتے۔

آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے ان کے سوالات کے جوابات دینے کا دن ۔حالات نے بچوں کو بھی پریشان کر رکھا ہے مستقبل کے بارے میں خدشات ہیں یوٹیوب چینل انہیں اور زیادہ خوفزدہ کر دیتے ہیں۔ اتوار کو ہماری یہ درخواست بھی ہوتی ہے کہ نماز عصر کے بعد اپنے ہمسایوں اور محلے داروں سے ملا جائے۔ ایک دوسرے کا دکھ درد جانا جائے اپنے طور پر جو کچھ بھی کر سکتے ہیں وہ کر کے بہت سے مسائل خود حل کیے جائیں۔یہ حقیقت ہے کہ زندگی کی آسانیوں کے حوالے سے ہماری وفاقی صوبائی بلدیاتی حکومتیں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہیں۔

جمہوری معاشرت میں ماحول کا بھرپور انداز سے سیاسی ہونا ناگزیر ہوتا ہے مگر جب جارحیت مسلط ہو جائے تو عسکریت کا غلبہ بھی فطری ہوتا ہے۔ ذمہ دار حکمرانوں کی ایسے میں کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے مشاورتی جمہوری اداروں کو غیر فعال نہ ہونے دیں۔ ہر مسئلے پر اور خاص طور پر ہنگامی صورت حال میں سنگین بحرانوں میں تو ملک گیر مشاورت اور زیادہ لازمی ہو جاتی ہے۔ ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اپنے شہریوں کی بھی سنی جائے تاکہ فیصلہ سازی میں ان کو بھی شرکت کا احساس ہو ۔

جمہوری ملکوں میں حکمران انتخاب کے ذریعے تبدیل ہوتے ہیں وہاں مضبوط اور مستحکم قومی سیاسی پارٹیاں ہی مملکت اور شہریوں کے درمیان آئینی رشتہ برقرار رکھتی ہیں۔ اپنے علم تحقیق اور مطالعے کی روشنی میں ان کا لموں میں بار بار اس جہت پر زور دیتا ہوں کہ قومی سیاسی پارٹیوں کا ایک باقاعدہ معمول یہ ہونا چاہیے کہ وہ سال بھر اپنے کارکنوں کو فعال رکھیں۔ پہلے مرحلے میں ضلعی کنونشن منعقد کریں تاکہ مقامی سطح پر کارکن اور عہدے دار آپس میں مل بیٹھیں۔ پھر صوبائی کنونشن ہوں۔ ہر سال کسی مقررہ وقت پر قومی کنونشن کا اہتمام ضلعوں اور صوبوں کے منتخب مندوبین پر مشتمل کیا جائے۔ برسوں کی تحقیق سے یہ اصول مسلم ہو چکا ہے کہ عوام ہی مسائل کا براہ راست شکار ہوتے ہیں۔ وہی ان کی درست شناخت کرتے ہیں اور وہی ان کا ٹھوس حل بھی سمجھا سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں فیصلہ سازی صرف اشرافیہ کر رہی ہے۔ اس لیے معاشرے کی سمت درست نہیں رہتی ہے۔سیاسی کنونشنوں سے پارٹی کی مرکزی قیادت کو بھی کارکنوں کے ذریعے عام لوگوں کے محسوسات اور اضطراب کا اندازہ ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں بڑے فیصلے کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ہم نے تو ایک صحافی کی حیثیت سے ان سات دہائیوں میں یہی مشاہدہ کیا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کی سوچ ہی عوام کی سوچ ہوتی ہے۔عوام کو جب بھی موقع ملا انہوں نے درست فیصلے ہی کئے۔ اسی لئے پاکستان کشمیری بھائیوں کے حق خود ارادیت پر اصرار کرتا ہے۔

اب چار دنوں کی عسکری برتری نے ایک اطمینان بخش موقع دیا ہے کہ ہم پاکستانی صرف انڈیا کے وقتی مقابلےکیلئے نہیں بلکہ اقوام عالم کی صفوں میں ایک ذمہ دار باوقار باشعور مملکت کا مقام حاصل کریں۔ اس کیلئے ہمیں کم از کم دو دہائیوں یعنی 20 سال یعنی 2045 تک کیلئے سیاسی ،سفارتی، سماجی، اقتصادی، ٹیکنالوجی، صحت ،پینے کے پانی زرعی اور تمام شعبوں پر لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے۔ ہم سب کے پیش نظر ہو کہ 2045تک واشنگٹن میں کیا کیا رحجانات برپا ہوں گے۔ یورپی یونین کیا کیا منصوبے مکمل کرنے والی ہے۔ خلیجی ریاستوں میں کیا کیا پروجیکٹ زیر تکمیل ہیں۔ ٹرمپ کے حالیہ دورے کے بعد خلیج میں کیا کیا تبدیلیاں آئیں گی۔ مشرق وسطی میں کیا قیامتیں برپا ہوں گی۔ اسرائیل فلسطینیوں سے کون سے علاقے خالی کروائے گا۔ انڈیا میں امریکی یورپی سرمایہ کاری کتنی بڑھے گی۔ بھارت پاکستان سمیت سارک ممالک میں کیا کیا سازشیں کرنے والا ہے۔ سرکاری محکمے یقیناً اپنے طور پر یہ مشق کر رہے ہوں گے۔ اس میں یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کو بھی شامل کیا جائے۔ یہ ہدف بھی سامنے رکھا جائے کہ ہمیں چین کا ماڈل اختیار کرنا ہے یا مصر کا یا برما کا۔ ہمیں اپنے مغربی مسلم ہمسایوں افغانستان اور ایران سے کتنی تجارت اور قربت بڑھانی ہے۔


عوام میں شعور کی یہ سمت قومی سیاسی پارٹیاں ہی اپنے پالیسی بیانات سے متعین کر سکتی ہیں۔ کتنے عالمی مقامی علاقائی طوفان پیدا ہوتے ہیں، گزر جاتے ہیں۔ پارٹیاں اپنے مرکزی اجلاس بلا کر ان پر سنجیدگی سے غور نہیں کرتیں حالانکہ ایسی کارروائی سے ہی پارٹی مستحکم ہوتی ہے۔ انڈیا کی حالیہ جارحیت پر اور پاکستان کی عسکری برتری پر بیانات تو بہت جاری ہوئے ہیں لیکن کسی پارٹی کی مجلس عاملہ نے اس کے مختلف پہلوؤں کا معروضی احاطہ نہیں کیا نہ ہی قوم کو اعتماد میں لیا گیا کہ بھارتی حکمرانوں کی اس جارحیت کے مقاصد کیا تھے اور یہ جرات کس کی شہ پر کی گئی۔ سیاست جہاں بانی حکمرانی ایک سنجیدہ عمل ہے کیونکہ کروڑوں جیتے جاگتے انسانوں کی زندگی اور موت کا دارومدار اسی پر ہوتا ہے۔ پاکستان میں بہت اچھے رجحانات بھی نمو پا رہے ہیں۔ ہماری بیٹیاں ڈپٹی کمشنر جیسے کلیدی عہدوں پر نہ صرف فائز ہو رہی ہیں کامیاب بھی ہو رہی ہیں۔ اس طرح کے تہذیبی اور ثقافتی سنگ میل طے ہو رہے ہیں۔ ان سب پر بھی سیاسی پارٹیوں کو غور کرنا چاہیے۔

یہ خیال رہے کہ انڈیا پاکستان کا ازلی دشمن ہے وہ سکون سے نہیں بیٹھے گا وہ اس سلسلے میں عسکری منصوبے بھی بنا رہا ہے ،سیاسی سفارتی اقتصادی اور تعلیمی بھی۔ ہماری سیاسی پارٹیوں کو آئندہ دو دہائیوں کیلئے ایک مجموعی لائحہ عمل کئی دن کی فکری نشستوں کے بعد طے کرنا چاہئےاور اس میں مرکزی ہدف بھارت کے جارحانہ عزائم کو رکھا جائے۔

تازہ ترین