• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

والد صاحب وزیر اعظم ہیں تایا جان کی پارٹی وفاق اور پنجاب میں برسراقتدار ہے چچا زاد بہن کے اقتدار کے پھریرے پنج پانیوں پر زور وشور سے لہرا رہے ہیں مگر ماضی میں تایا کا نامزد کردہ جانشین والد کی واحد سیاسی امید اور اپنی کزن کا پیارا بھائی حمزہ شہباز شریف کہاں ہے؟ اس وقت خاندان شریفیہ کا اقتدار نصف النہار پر ہے، مقتدرہ سے تعلقات غیر معمولی طور پر خوشگوار ہیں، مخلوط حکومت کی اتحادی پیپلز پارٹی سے ورکنگ ریلیشن شپ بہترین ہے ،اپوزیشن تحریک انصاف کوئی بڑا چیلنج نہیں بن رہی ۔ جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کی چھڑی دینے کی خوشی کی تقریب میں اس کے والد اسٹیج پر تشریف فرما مسلسل مسکرا رہے تھے۔ تایا کی تقریب میں اچانک اور غیر متوقع شرکت خاندان کی غیر معمولی عزت و حشمت کا پتہ دے رہی تھی خاندانِ شریفیہ کی نئی سپر سٹار وزیر اعلیٰ بھی تقریب میں جلوہ گر تھیں اور تو اور خاندان شریفیہ کا غیر سیاسی فرزند حسن نواز شریف بھی اپنی بہن کے برابر والی نشست پر تشریف فرما تھا اگر خاندان شریفیہ کا کوئی سیاسی نام وہاں نہیں تھا تو وہ حمزہ شہباز تھا۔

پہلے سنا گیا کہ مریم حکومت سنبھالے گی اور حمزہ پارٹی سیاست، مگر حمزہ کا پارٹی سیاست میں عرصہ دراز سے کوئی کردار نظر نہیں آیا پھر کہا گیا کہ وزیر اعظم کا پبلک افیئرز یونٹ چلائیں گے جس کا دفتر سٹیٹ گیسٹ ہائوس مال روڈ پر ہو گا مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا ،اب تو پبلک افیئرز یونٹ کا انچارج وزیر رانا مبشر کو بنا دیاگیا ہے اور یوں یہ کہانی ختم ہو گئی۔ حمزہ شہباز زیادہ تر لاہور میں رہتے ہیں دن میں وہ لاہور مسلم لیگ ن کے ماڈل ٹائون آفس میں واقع اپنی خوبصورت انیکسی میں بیٹھتے ہیں ان کے کمرے کے شفاف شیشوں سے سفید سنگ مرمر کا فوارہ اور موسم کے رنگ برنگے پھول نظر آتے ہیں ،فوارے کا رقص کرتا پانی اور پھولوں کی رنگا رنگی انہیں ٹھنڈک دیتی ہو گی۔ اپنے دفتر میں وہ خاموشی سے سیاسی کارکنوں سے ملتے ہیں۔ اہل اقتدار کا رش ان کے ہاںسے غائب ہو چکا ہے، سیاسی سرگرمیاں ان کے حلقے کی خوشی اور مرگ تک محدود ہیں ۔ان کے کمرے میں میاں شریف اور ان کے تینوں بیٹوں نواز، شہباز اور عباس کی تصویریں نمایاں ہیں۔ حمزہ پنجاب حکومت کے معاملات یا کاموں میں نہ تو دخل اندازی کرتے ہیں اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی سفارش ہی کرتے ہیں۔ کئی شرارتی انہیں بغاوت اور کئی سازشی انہیں متحرک ہونے پر بھڑکاتے رہتے ہیں مگر وہ ٹھنڈے ٹھار وفاداری اور صبر و شکر کی علامت بنے سب کچھ سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔ والد شہباز شریف ویک اینڈ پر لاہور آتے ہیں تو بیٹے سے صلاح مشورہ بھی کرتے ہیں اور یہ دعوت بھی دیتے رہتے ہیں کہ اسلام آباد آ کر وہیں رہو اور حکومتی معاملات چلانے میں میری مدد کرو مگر ابھی تک اس کا کوئی فارمولہ نہیں بن سکا، اس لئے اس پر عمل بھی نہیں ہو سکا۔

حمزہ شہباز قومی سیاسی منظرنامے سے بھی غائب نہیں نونی سیاست سے بھی مکمل غیر حاضر اور شائد لاتعلق بھی، تایا نواز شریف البتہ کبھی کبھی سیاسی معاملات پر جاتی عمرا میں ان سے مشورہ لے لیتے ہیں جاتی عمرا میں ہی ان کی وزیر اعلیٰ مریم سے دعا سلام اور خوشگوار راہ ورسم کا اعادہ ہو جاتا ہے۔

کہاں حمزہ شہباز پارٹی ٹکٹوں، ضمنی انتخابات اور پارٹی تنظیم وسیاست کے مرکزی کردار ہوا کرتے تھے اور کہاں انکی پراسرار خاموشی، اہم سیاسی واقعات سے انکار غائب ہونا، کسی بڑے فیصلے میں ان کی شرکت کا نظر نہ آنا غیر معمولی نہیں یقیناً یہ غیر معمولی ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس خاموشی کا سبب ان کا اپنا راہ فرار ہے یا پھر وہ اپنے لئے کوئی کردار نہ پا کر پیچھے ہو گئے ہیں اگر ان دونوں آپشنز کا جائزہ لیں تو شائد یہ دونوں ہی باتیں درست ہیں حمزہ کی شخصیت میں عہدوں کی حرص اور جدوجہد کا مادہ سرے سے ہی نہیں اسی لئے وہ مریم نواز کی متوقع جانشینی وزیر اعلیٰ کے طور پر ان کی نامزدگی اور پھر کامیابی پر حسد و نفرت کا شکار نہیں بلکہ وہ خود سے اقتدار اور ذمہ داری کا بوجھ اتار کر زندگی سے زیادہ لطف اندوز ہو رہے ہیں انہیں طویل اور صبرآزما انتظار کے بعد بیٹی کی صورت میں پہلی اولاد نصیب ہوئی ہے وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کھیل کر اور بات چیت کرکے اقتدار و طاقت کے حصول سے کہیں زیادہ مطمئن اور خوش نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف اس حقیقت سے بھی صرف ِ نظر نہیں کیا جا سکتا کہ حمزہ بحرانوں کے دور میں وزیر اعلیٰ پنجاب رہا ہے اور سالہا سال تک نون مسلم لیگ میں نمبر2اور سب سے طاقتور سیاسی شخصیت رہ چکا ہے اس لئے اس کو کسی کم اہم سیاسی ذمہ داری میں کوئی کشش نظر کیوں آئے گی اس لئے وہ اقتدار کی سنٹر سٹیج سے بیک سٹیج پر چلا گیا ہے۔

مغلیہ خاندان میں شہزادہ اورنگزیب عالم گیر اور شہزادہ دارالشکوہ کی کشمکش پر قصے کہانیاں بہت دلچسپ ہیں خاندان شریفیہ کا دار الشکوہ کون ہوگا اور اورنگزیب عالمگیر؟ ابھی تو اس پر حتمی فیصلہ تاریخ اور واقعات نے کرنا ہے البتہ ایک بات طے ہے کہ اقتدار کی لڑائی اگر ہوئی بھی تو خاندان شریفیہ میں وہ مار دھاڑ نہیں ہو گی جو عالمگیر اور دارالشکوہ میں ہوئی تھی۔

تضادستان میں سیاست کے عروج و زوال حالات کو الٹ پھیر دیتے ہیں زوال کو سہنے اور برداشت کرنے کے لئے پتھر کا دل چاہئے جب بادشاہ شاہ جہاں کا اقتدار زوروں پر تھا تو دارالشکوہ بادشاہ کا جانشین تھا بادشاہ کے تخت پر جگہ پاتا تھا ہندو مسلمان اور سکھ سب اس کو مانتے تھے فقیر صوفی میاں میر سے لیکر جرنیل تک سب اس کے حامی تھے جب اقتدار چھن گیا اور وہ خوبصورت اور صلح کل شہزادہ دربدر ہوگیا تو سوائے صوفیوں، جوگیوں اور سنتوں کے سب اسے چھوڑ گئے اقتدار ہے ہی ایسی ظالم چیز !!!جس کے سر پر اقتدار کا ھما بیٹھے اس کے گرد خوشامدی طوطے گھیرا کر لیتے ہیں اور اہل اقتدار کو یہ بھی بھلا دیتے ہیں کہ آپ کو اقتدار تک پہنچانے والے کون لوگ تھے؟ دوسری طرف عروج سے زوال کو آنے و الے لوگوں کے نہ کوئی در پر دستک دیتا ہے اور نہ کوئی فریادی آواز لگاتا ہے نہ تو حمزہ شہباز دارالشکوہ ہے اور نہ ہی زوال کا شکار کیونکہ نہ تو وہ حصول اقتدار کے لئے دیوانہ اور جنونی ہے اور نہ خاندان شریفیہ نے اسکی آپشن کو ابھی مکمل طور پر NOکیا ہے ابھی مریم کی باری ہے اسے فری ہینڈ ہے ہو سکتا ہے کہ اس بار دارالشکوہ کو بھی چانس دے دے تاریخ میں ہر بار ایک جیسے نتائج نہیں نکلتے عروج و زوال، اقتدار اور بے اختیاری دونوں زندگی کا حصہ ہیں جو دونوں حالتوں میں اچھا انسان رہے وہ ہی کامیاب ہے وگرنہ اگر بادشاہ، اچھا انسان نہیں تو اس کی بادشاہی بھی تاریخ میں بدنما داغ ہوتی ہے۔

تازہ ترین