• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں پہلی بار انڈیا بطور زائر زائرین کے اس قافلے کے ساتھ گیا جو حضرت مجدد الف ثانیؒ کے عرس میں شرکت کیلئے جا رہا تھا۔ ایک ریٹائرڈ جسٹس اس قافلے کے سربراہ تھے جن کا نام اس وقت یاد نہیں آ رہا عرس سے واپسی پر ہماری دو بسوں کا اسٹاپ امرتسر تھا جہاں ہمارے لئے ہائی ٹی کا اہتمام کیاگیا تھا۔ میں نے جسٹس صاحب سے اجازت لی اور ایک پرانے امرتسری خواجہ مجید کو ساتھ لے کر دادا جان کی مرقد پر دعا مانگ کر اسی رکشے میں دوبارہ واپس آگیا جس پر سوار ہو کر مجید صاحب کے ساتھ یہاں آیا تھا۔ جسٹس صاحب سے ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم ایک گھنٹے میں واپس آ جائیں گے ابھی پندرہ بیس منٹ باقی تھے جس رکشے پر ہم آئے تھے وہ ہم نے چھوڑا نہیں تھا چنانچہ اسے واپس اسٹیشن جانے کیلئے کہا اور تھوڑی دیربعد ہم امرتسر ریلوے اسٹیشن کی عظیم عمارت کے باہر رکشے سے اتر رہے تھے لیکن یہ دیکھ کر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ہم زائرین کی دونوں بسیں روانگی کے لئے بالکل تیار کھڑی تھیں تمام زائرین اس میں سوار ہو چکے تھے اور ان سب کو صرف ہماری آمد کا انتظار تھا۔ میں اور خواجہ مجید اپنی بس میں سوار ہونے لگے تو سی آئی ڈی کے ایک منحنی سے اہلکار نے ہمیں بس میں سوار ہونے سے روک دیا اور کہا آپ لوگ کہاں سے آ رہے ہیں؟ رکشے والا واپس مڑنے ہی کو تھا میں نے خفیہ والے سےکہا کہ اسے روک کر پوچھ لو کہ ہم کہاں سے آ رہے ہیں۔ سی آئی ڈی کے اہلکار نے اس سے معلومات حاصل کیں اور پھر اس کے رکشے کا نمبر نوٹ کرکے اسے جانے دیا۔ اب وہ پھر میری طرف متوجہ تھا۔ جی مہاراج! کہاں سے آ رہے ہیں آپ؟

اپنے دادا کی قبر پر دعا مانگ کر آرہا ہوں۔

کیا نام ہے آپ کا؟۔ عطاء الحق قاسمی

پتا جی کا کیا نام ہے۔بہاءالحق قاسمی

کیا کرتے ہیں۔ کالج میں پروفیسر ہوں

آپ کا نام کیا ہے

میں نےبتایا ہے نا عطاءالحق قاسمی

کیا کرتے ہیں۔بتایا تو ہے کالج میں پروفیسر ہوں

کہاں گئے تھے؟

وہ اپنی طرف سے مجھ پر جرح کر رہا تھا اور وہی تکنیک استعمال کر رہا تھا جو چوروں پر جرح کرتے ہوئے استعمال کی جاتی ہے اس کا خیال تھا کہ جھوٹ بول رہا ہوں اور ایک ہی سوال بار بار اور اچانک پوچھنے سے میری زبان پر غیر ارادی طور پر سچ آ جائے گا جب اس نے مجھے بہت زیادہ زچ کیا تو میرے اندر کا امرتسری لاہور بیدار ہوگیا اور میں نے اسے خوب سنائیں یہ سوچے بغیر کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اس دوران زائرین نے بھی شور مچانا شروع کردیا تھا، جسٹس صاحب بھی اپنا عصا ہاتھ میں تھامےہماری مدد کو پہنچ چکے تھے چنانچہ سی آئی ڈی کے اہلکار نے ہمیں بس میں سوار ہونے کی اجازت دے دی اور پھر دونوں بسیں آگے پیچھے واہگہ کیلئے روانہ ہوگئیں بارڈر پر پہنچ کر بسوں نے بریک لگایا دوسرے زائرین کے ساتھ میں بھی بس سے نکلا تو سامنے پھر وہی منحنی سا سی آئی ڈی کا اہلکار میرا منتظر تھا۔

جی مہاراج کہاں گئے تھے آپ؟

اپنے داد کی قبر پر

کیا نام ہے آپ کا؟

عطاء الحق قاسمی

پتا جی کا کیا نام ہے؟

بہاء الحق قاسمی

اس دوران اس کی نظر میری قمیض کی جیب میں نواڑے ہوئے ایگل کے قلم پر پڑی جس کی قیمت زیادہ سے زیادہ تین چار روپے تھی۔ اس نے سوالات کا سلسلہ درمیان میں ہی چھوڑا اور کہا ۔مہاراج! یہ قلم بہت خوبصورت ہے۔

میں نے فوراً یہ خوبصورت قلم جیب سے نکالا اور اپنی دونوں ہتھیلیوں پر رکھ کر ہاتھ اس کی طرف پھیلا دیئے۔ لالہ جی یہ آپ کی نذر ہے۔ لالہ جی نے کنکھیوں سے ادھر ادھر دیکھا اور پھر قلم پر اس طرح جھپٹے جیسے شاہین کبوتر پر جھپٹتا ہے۔ اس کے بعد موصوف نے مجھ سے تمام تر گستاخیوں کی معافی مانگی اور مصافحے کے بعد معانقہ کرکے رخصت ہوگئے۔

اس وقت شام ہونے کو تھی اور سرحد کی دوسری طرف پاکستانی پرچم پوری آن بان سے لہرا رہا تھا میں یہاں سے اپنی زمین اور اپنے لوگوں کو دیکھ سکتا تھا۔ بس درمیان میں چند سو گز کا فاصلہ تھا رسمی کارروائیوں سے فراغت پا کر ہم لوگ پاک سرزمین کی طرف اس طرح لپکے جیسے صدیوں کی جدائی کے بعد وصال کے لمحے میسر آئے ہوں اور اب ہمارے قدم پاک سرزمین پر تھے پاک وطن جس کی خاک ہماری آنکھوں کا سرمہ ہے۔ ’’ال ہو‘‘ کی ضرب لگانے والے ایک پیر صاحب کے مرید ان کے استقبال کے لئے یہاں موجود تھے ۔ انہوں نے لپک کر ان کا سامان اٹھایا اور پیر صاحب شان سکندری سے چلتے ہوئے اپنی کار کی طرف روانہ ہوگئے۔ نواز ہاشمی، خواجہ مجید بھٹی صاحب اور غاشو پہلوان کے منہ مسلسل ہل رہے تھے۔ وہ یقیناً کچھ کھا رہے تھے میںنے ان دونوں سے معانقہ کیا اور ایک سرشاری کے عالم میں اپنی زمین پر چلنے لگا مجھے یوں لگا جیسے میرے راستے میں کہکشاں بچھی ہے اور میرے ایک ہاتھ میں چاند اور دوسرے ہاتھ میں سورج ہے۔

تازہ ترین