• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چوہے نے نہ چاہتے ہوئے بھی چھپکلی کھا لی، چوہے کو کراہت تو آئی لیکن مرتا کیا نہ کرتا۔ چوائس تھی کہ یا چھپکلی کو نگلو یا بچھوسےنمٹو۔ بچھو پہلےبھی کئی بار ڈنک مار چکا تھا اب بھی ڈنک اٹھائے اپنے گروہ سمیت دھمکیاں دیتا پھرتا تھا۔ چوہا بچھو سے خوف کھاتا تھا اس لئے چھپکلی نگل لی۔

یہ یہاں سے کوسوں دور سمندر پار کی کہانی ہے جہاں چوہے اکثریت میں تھے کہانی سنانے والا چوہا، بزدل، ڈرپوک اور کم حوصلہ تھا جب کہ کئی چوہے اکڑ میں یا نشے میں آ کر بغاوت پر اتر آتے تھے مگر ہمارا چوہا معتدل مزاج تھا، اسے بچھو کے ڈنک سے خوف آتا تھا اور چھپکلی سے کراہت آتی تھی۔ بچھو کا ماضی دکھ اور تکلیف دینے کا تھا جبکہ چھپکلی بھی مسائل ہی پیدا کرتی تھی مگر جہاں چوہے ہوں گے وہاں چھپکلیاں تو ہوںگی۔ چھپکلی کراہت لاتی ہے مگر سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ اس میں ذرہ برابر بھی زہر نہیں اس لئے یہ کھا بھی لی جائے تو اس کوئی خطرہ نہیں۔ بچھو تو ہرنوع کے حشرات الارض پر وار کرتا ہے، اپنے ڈنک کو اٹھائے اپنی انا پر ناز کرتا ہے۔

چوہے کی صورت حال بڑی عجیب تھی، ایک طرف شیطان اور دوسری طرف گہرا نیلا سمندر والا معاملہ درپیش تھا پسندیدہ صورتحال دونوں طرف نہیں تھی، دو ناپسندیدہ میں سے کم ناپسندیدہ کو چنا جاسکتا تھا۔ بچھو ڈنک مارتا ہے تباہی لاتا ہے، کچھ بھی تو سنوارنہیں سکتا ہے اور نہ سنوار سکا ہے، چھپکلی کے بغیر ماحولیاتی نظام چلتا نہیں چھپکلی شرپسند کیڑے مکوڑوں کو صفحہ ہستی سے مٹاتی ہے ،کئی بار شمع کے پروانے بھی اس کا شکار ہوئے مگر ریاست کے ماحول کے باغی چھپکلی سے بچ نہیں پاتے، چھپکلی آنکھیں موندے دشمن کی پوزیشن کا انتظار کرتی ہے اور پھر لپک کر ہدف کو اس طرح سے نشانہ بناتی ہے کہ دشمن سیدھا چھپکلی کے پیٹ میں جاتا ہے۔ چھپکلی چوہوں اور بچھوئوں دونوں پر غالب ہے چوہے اکثریت میں ہیں،مگر اکثر بزدل ہیں،مشکلات سے گھبراتے اور اگر کوئی اکڑ دکھائے یا باغی ہو جائے تو پھر چھپکلی اس پر اسی طرح حملہ آور ہوتی ہے جیسے دشمن پر۔ پھر اس ہدف کو کہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملتی۔ بچھو کا معاملہ آ جائے تو بظاہر وہ چوہوں کو ڈنک مار سکتا ہے انہیں اپنی ٹیم کےذریعے بدنام کر سکتا ہے، الزام لگا سکتا ہے، ان کے خلاف پراپیگنڈا کرسکتا ہے دن رات ان کے خلاف جعلی کہانیاں بنا سکتا ہے، بچھو نے ہر اختلاف کرنے والے کو ڈنک مارا اور اب بھی وہ اسی پر اڑا ہوا ہے کہ اس نے ڈنک مار کر ہی چھوڑنا ہے مگر بچھو اور چھپکلی کا مقابلہ بنتا ہی نہیں ۔ چھپکلی اونچائی پر رہتی ہے اونچی سے اونچی جگہ پر دکھائی دیتی ہے، بچھو مگر زمینی کیڑا ہے دور سے چھپکلی کو اپنا ڈنک دکھا سکتا ہے اور وہ مسلسل یہ کام کرتا بھی رہا ہے مگر چھپکلی دور بیٹھے ہی بچھو کو چوہوں کے ذریعے زنجیروں میں باندھے رکھتی ہے۔

چوہے چونکہ اکثریت میں ہیں اس لئے ان سب کو مارنا یا جھکانا ممکن نہیں اسی لئے چھپکلی صرف باغی چوہوں کے ساتھ نمٹتی ہے مگر بچھوئوں کے ساتھ وہ جنگ کرتی ہے اور یہ جنگ اس وقت ختم ہوتی ہے جب وہ مکمل سرنڈر نہ کردیں۔ ڈنک بے شک رہے مگر وہ صرف دکھاوے کاہو۔

فانی انسانی اکثر یہ سوچتا تھا کہ کاش چھپکلیاں،بچھو اور چوہے سب ایک ہو جائیں مگر سب کی خصلتیں،سوچ اور ہدف الگ الگ ہیں ہر کوئی اپنے ہدف کو ہر طریقے سے ،چاہے وہ زور آزمائی ہو،حاصل کرنا چاہتا ہے جس سے مقابلہ بازی جنم لیتی ہے اور پھر طاقتور کمزور کو زیر کر لیتے ہیں کیا انسان ، کیا جانور، کیا کیڑے اور کیا مکوڑے سب میں یہ معاملات ایسے ہی رواں دواں رہتے ہیں۔ فانی انسانی کا خواب تھا کہ یہ مقابلہ بازیاں، یہ لڑائیاں، یہ جنگیں ، یہ رقابتیں ختم ہوں اور ہر طرف امن، خوشحالی اور سکون کا بول بالا ہو، یہ خواب فی الحال تو پورا ہوتا نظر نہیں آتا، بچھو اپنی خُو بدلنے پر تیار نہیں، چوہے اپنی عادات کیسے تبدیل کرلیں؟ چھپکلی بھی آب و تاب سے زندہ ہے اوررہے گی ،چوہے اور بچھو کتنے ہی چیںبہ جبیں ہوں، چھپکلی نے اپنا رنگ دکھانا ہے اور دکھا رہی ہے۔ فانی انسانی کا خیال تھا کہ بچھو کسی وقت تو ڈنک چھپا کر اسے بند کرے گا مگر بچھو تو بچھو ہے وہ تو اپنے ہم ذات بچھو کو نہیں بخشتا تو وہ چوہے اور چھپکلی سے اپنی دشمنی کیسے ختم کرے گا۔؟

بچھو اور چوہے کا تعلق ان مٹ اور پکا نہیں ہوتا وقت اور حالات اس تعلق کو بدلتے رہتے ہیں۔ میکاولی کہتا ہے کہ خوف کسی بھی طاقت سے زیادہ اثر انگیز ہوتا ہے۔ چھپکلی چوہوں کو ڈرا کر رکھنے میں کامیاب ہے اور اگرکہیں اس کی راہ میں کوئی بچھو آ جائے تو پھر چھپکلی پنجے جھاڑ کر اس کے پیچھے پڑ جاتی ہے اور اسے انجام تک پہنچائے بغیر چین سے نہیں بیٹھتی، ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے، کاش دوبارہ ایسا نہ ہو مگر چوہے کے ایسا سوچنے سے دنیا کے فیصلے تو بدلنے والے نہیں۔ بچھو بے خوف ہے مگربے وقوف بھی ہے۔ اس وقت گھرا ہوا ہے تب بھی ڈنک اٹھائےبیٹھا ہے، ایسے میں کون اسے بچائے گا۔؟

یہ تمثیلی کہانی ہے اس کے کردار ہمارے ارد گرد کے ہیں۔ ہماری سیاست ، معاشرت، منافرت اور محبت سب اس کہانی میں سمو ئی گئی ہے۔ اگر کوئی کردار چاہے تو وہ اپنے آپ کو بدل بھی سکتا ہے انسان اور سانپ تو اپنی جُون، کایا کلپ یا تبدیلی آسانی سے کرلیتے ہیں، دیو بونے بن جاتے ہیں اور سانپ بوڑھے آدمی۔ کیا بچھو، چوہے اور چھپکلی ان سے سبق حاصل نہیں کر سکتے۔ اگر شاہ گدا بن سکتے ہیں اورگدا شہنشاہ، ڈاکوولی اللہ اور گناہ گارنیکو کار بن سکتے ہیں اور بن رہے ہیں تو ہماری ریاست کے کرداروں کی کایا کلپ کیوں نہیں ہوتی۔ کردار بدلیں گے تو حالات بدلیں گے وگرنہ جنگ و جدل، ظلم و ستم اور عیاری و ہوشیاری ہی چھائی رہے گی۔

تازہ ترین