ہمسائے کے خلاف زہر اگلنے کے حوالے سے درویش کو ہمیشہ اپنوں سے شکایات رہی مگر اب کی بارتو مودی سرکار نے کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی، موصوف نے اپنے عوامی جلسے میں پاکستانیوں کو مخاطب کرتے ہوئے تازہ ارشاد فرمایا ہے کہ ”سکھ چین کی زندگی جیو، روٹی کھاؤ ورنہ میری گولی تو ہے ہی۔ “ آنکھوں سے دیکھتے اور کانوں سے سنتے ہوئے بھی یقین نہیں آرہا تھاکہ کوئی انڈین پرائم منسٹر بول رہا ہے۔
ہندوستان کے کتنے پردھان منتری آئے کانگریسی بھی اور غیر کانگریسی بھی، کبھی کسی نے بدترین جنگی ماحول میں بھی کم از کم پاکستانی عوام کا ذکر کرتے ہوئے اس نوع کے متشدد شبد نہیں بولے۔درویش کو یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستان میں اپنے مخصوص مفادات کی خاطر اقتدار کے کئی بھوکوں نے بونگیاں مارنے اور منافرتیں بھڑکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ایمانداری سے جائزہ لیا جائے تو پاکستانی یا ہندوستانی عوام میں جانکاری رکھنے والا کوئی بھی شخص جنگ یا جنگی جنون کاحامی نہیں ،ہر باشعور پاکستانی یا انڈین کوغرض ہے تو اپنے معاشی مسائل اورسماجی دکھوں کے حل سے۔
مودی جی ! آپ نے بہتر حکمت عملی اور سیاسی تدبر کی بجائے غصے میں یہ کیا بگاڑ کھڑا کردیا ہے اور پھر اس بھڑکاؤ ماحول کو روز بروز مزید بھڑکاتے چلے جارہے ہیں۔کیا نفرت کا جواب نفرت ہوتا ہے؟ یااس سے مزید نفرت پھیلتی ہے؟ کیاآپ نے اپنے حالیہ اقدامات اور بیانات کے ذریعے ہندوستان کی ساکھ کو عالمی سطح پر داؤپرنہیں لگادیا ؟ اس درویش جیسے لبرل لوگ ہندو کی وسعتِ قلبی و نظری کی مدح سرائی کرتے چلے آرہے ہیں آپ نے ہمیں کسی جوگا نہیں چھوڑا ۔
کوئی شک نہیں کہ پہلگام کاسانحہ اذیت ناک ہے جس میں بالخصوص ہندوؤں کی تخصیص کرتے ہوئےبے گناہ انسانوں کو مارا گیا،اس سانحہ کے بعد جس طرح نہ صرف عالمی سطح پر پوری دنیا میں بھارت کے ساتھ ہمدردی کی زبردست لہراُٹھی تھی بلکہ پاکستان میں بھی عوامی سطح پر آتنک وادی ذہنیت کے خلاف مضبوط سوچ ابھر رہی تھی۔ سب نے دیکھا خود انڈین کشمیرمیں ہندوؤں سے ہمدردی کے کیسے کیسے واقعات ہوئے، لوگ سڑکوں پر رو رہے تھے ۔شیخ عمر عبداللہ چیف منسٹر کی حیثیت سے اسمبلی میں اس دردانگیز سانحے کو بیان کررہے تھے مگر آپ نے جس نو کا نفرت انگیز جوابی ردعمل دکھایا اس سے پورا منظرنامہ ہی بدل کر رہ گیا۔ یہاں انڈین حمایت میں تشکیل پاتی رائے عامہ یک لخت اس کے الٹ یا برعکس ہوگئی۔عالمی سطح پر بھی آپ نے اپنے دوستوں کو امتحان میں ہی نہیں مشکلات میں ڈال دیا ہے،وہ امریکی قیادت جو اٹھتے بیٹھتے آپ کے گن گاتی اور قصیدے پڑھتی تھی اس کی گنگا الٹی بہنے لگی۔ آپ کے مغربی و یورپی اتحادی آپ سے نالاں ہوگئے سب سے بڑھ کر مسلم ورلڈ میں جس تیزی سے انڈیاساکھ مضبوط ہو رہی تھی اُسے بدترین دھچکا لگا۔ سب کچھ ہوتے ہوئے۔آج دنیا میں کوئی ملک سوائے اسرائیل کے کھل کر آپ کی حمایت میں زبان کھولنے کو تیار نہیں ، ٹرمپ کی طرح ہر ایشو پربیاقن بازی کرنے کی بجائے حکمت عملی کے ساتھ بہترسفارت کاری کی اسٹرٹیجی کو اپنائیں، احتجاجی وتیرے کی بجائے ان کی غلط فہمیاں دور کریں۔ خود اندرونِ ملک بھارت میں سنجیدہ طبقہ دن رات جس نوع کے سوالات اٹھارہا ہے سچ تو یہ ہے کہ بشمول آپ پوری بی جے پی حکومت کے پاس انہیں فیس کرنے کا یارا نہیں اگر یہ سلسلہ نہ تھما تو درویش کو نظر آرہا ہے کہ عام انڈین عوام طویل مدت سے آپ پر جو اعتماد کرتے چلے آ رہے ہیں نہ صرف وہ متزلزل ہو جائے گا بلکہ ایک نوع کی انارکی کا بھی احتمال ہے اور حالات اگر بڑی جنگ کی طرف گئے تو پھر اس خوبصورت تہذیبی خطے میں کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔دنیا کی زیادہ آبادی جنوبی ایشیا میں ہے۔دونوں اطراف کے عوام کی حالت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں، دونوں طرف بھوک ،بیماری اور بیروزگاری ہے تو ایسے حالات میں کیا وہ الفاظ مناسب ہیں جو آپ نے کہے؟ یا ہمیں ساحر لدھیانوی کے پیرائے میں دیکھنا، سوچنا اور عمل کرنا چاہیے کہ
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
جنگ کے اور بھی تو میداں ہیں
صرف میدان کشت و خوں ہی نہیں
حاصل زندگی خرد بھی ہے
حاصل زندگی جنوں ہی نہیں
آؤ اس تیرہ بخت دنیا میں
فکر کی روشنی کو عام کریں
امن کو جن سے تقویت پہنچے
ایسی جنگوں کا اہتمام کریں
جنگ وحشت سے بربریت سے
امن تہذیب و ارتقا کے لئے
جنگ مرگ آفریں سیاست سے
امن انسان کی بقا کے لئے
جنگ افلاس اور غلامی سے
امن بہتر نظام کی خاطر
جنگ بھٹکی ہوئی قیادت سے
امن بے بس عوام کی خاطر
جنگ جنگوں کے فلسفے کے خلاف
امن پر امن زندگی کے لئے