• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیرزادہ شریف الحسن عثمانی، سکھر

میری ماں کو سب ’’چٹّی‘‘ کہہ کر بلاتے تھے۔ وہ تھرپارکری نسل کی ایک خُوب صُورت، گول مٹول سی سفید گائے تھی۔ رنگ رُوپ میں، مَیں اپنی ماں پر گیا تھا، تو سب نے میرا نام ’’چٹّا‘‘ رکھ دیا۔ جُوں جُوں مَیں بڑا ہورہا تھا، کمر اُبھرنے لگی تھی، سینگ تیز اور ٹانگیں مضبوط ہوتی جا رہی تھیں۔ 

لوگ مُجھے دیکھتے، تو تعریفیں کرتے نہ تھکتے۔ مالک بھی بہت فخر سے میرا ذکر کرتا۔ اکثر کہتا ’’چٹّے کو قربانی کے لیے پال رہا ہوں۔‘‘ تب تک مُجھے قربانی کا مطلب بھی نہیں معلوم تھا۔ وہ تو ایک دن ایک بوڑھی گائے نے بتایا کہ ’’قربانی، اللہ کی راہ میں خُود کو پیش کرنےکانام ہے۔

یہ سعادت ہرکسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ جانوروں میں سے، جنہیں اللہ چُنتا ہے، وہی اِس مرتبے کو پہنچتے ہیں، وگرنہ چُھری کے نیچے تو ایک نہ ایک دن ہم سبھی کو آنا ہے۔‘‘جب مُجھے قربانی کا مطلب و مقصد معلوم ہوا، تو مُجھے ایسا لگنے لگا کہ جیسے مَیں کچھ خاص ہوں، اتنا کہ ایک دن میرا مالک مجھے اللہ کے حضور پیش کردے گا۔ مُجھے یاد ہے کہ اُن دِنوں یہ سب سوچ سوچ کر خوشی کے مارے میرے کُھر زمین پر نہ ٹکتے تھے۔

عید قریب آئی تو دن رات بادل برسنے لگے۔ ہر طرف کیچڑ، پانی اور پِھسلن پھیل گئی۔ غریب گاؤں والوں کے لیے اپنے مویشی منڈی تک لے جانا مشکل ہوگیا، سبھی پریشان تھے۔ پھر ایک دن گاؤں میں ایک اجنبی آیا۔ کہنے لگا، ’’سائیں! بڑی سڑک پانی میں بہہ گئی ہے۔ شہر میں تباہی پِھر چُکی ہے۔ خریدار ہیں نہ بھاؤ۔ جانور تو اب بوجھ بن گئے ہیں۔ جتنا مل رہا ہے، لے لو اور جس کے پاس جو ہے، سب مُجھے دے دو، ورنہ بعد میں پچھتاتے رہ جاؤ گے۔‘‘

اُس اجنبی کی باتوں میں جانے کیسااثرتھا کہ پورے گاؤں میں کھلبلی سی مچ گئی۔ سب اپنے اپنے جانور گننے اور تولنے لگے۔ میرے مالک نے بھی گہری سانس لی اور دل مسوس کر مُجھے صرف ساٹھ ہزار میں اُس کے حوالے کر دیا۔ مُجھے معلوم نہ تھا کہ اب کیا ہونے والا ہے، لیکن مَیں اتنا سمجھ چُکا تھا کہ اب اللہ کے حضور پیشی کا وقت قریب آ گیا ہے۔ 

پھر ایک شوراٹھا، ایک ہڑبونگ مچی۔ مُجھے بہت سے دوسرے جانوروں کے ساتھ ایک بڑے سے ٹرک میں ٹھونس دیا گیا۔ رش اتنا تھا کہ ٹھیک سے کھڑے ہونے کی جگہ بھی نہیں مل پارہی تھی۔ کِسے کہوں، کس سے شکایت کروں؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ اوپر سے مالک اور گھر سے بچھڑنے کا دُکھ الگ بے سکون کیے دے رہا تھا۔ ٹرک پرچڑھاتے وقت کم بختوں نے خوامخواہ میری پیٹھ پر جو لاٹھیاں برسائی تھیں، اُن کی وجہ سےجسم میں شدید درد ہو رہا تھا۔

پھر سفر شروع ہوا…ایسا سفر کہ جس میں نیند تھی نہ سکون، چارہ تھا نہ پانی۔ اگر کچھ تھا، تو بس شور، ڈنڈے، چیخیں اور رُکتا چلتا ٹرک۔ میرے ساتھ بندھا ایک بیل پھسل کر ایسا گرا کہ اُس کی ٹانگ ہی ٹوٹ گئی۔ کسی بےرحم نے پھرسےکھڑا کرنے کی کوشش میں اُسے اتنا مارا کہ بےچارہ بےہوش ہی ہوگیا۔ ایسے میں قربانی سے متعلق اپنے خاص ہونے کا جو احساس دل میں پیدا ہوا تھا، اپنی اور اپنے جیسوں کی بے قدری دیکھ کر کافور ہوگیا، الٹا دل میں غم و غُصّہ پیدا ہونے لگا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اُتارتے وقت جب کسی نے میری پیٹھ پر لاٹھی ماری، تو مَیں نے بھی جواب میں ایک ہلکا سا جھٹکا دے دیا۔ مَیں نے دیکھا کہ وہ دو آدمی، جو میری رسّی تھامےہوئےتھے،ہوا میں اُڑتےکافی دُور جا گرے۔ 

اپنی طاقت کا اندازہ ہوا، تو مَیں جوش سے بِپھر گیا۔ پھر تو جو میرے سامنے آیا، مَیں اُسے اُڑاتا ہی چلاگیا۔ وہاں ایک شورمچ گیا، مگراب مُجھے کسی کی پروا نہیں تھی۔ نہ جانے مَیں نے کتنوں کی ہڈیاں توڑ ڈالیں۔ جب انسان ہوکر وہ ہمیں ذرا انسانیت نہیں دکھا رہے تھے، تو پھر ہم سے تہذیب و شائستگی کی امید کیوں؟ سو، مَیں نے بھی کسی ظالم پر رحم نہیں کیا۔ وہ بڑی مشکلوں سے مُجھے پکڑنے اور ایک کھونٹے سے باندھنے میں کام یاب ہوئے۔ خون، پسینے میں نہائے سب یہی کہہ رہے تھے’’بڑا خرانٹ بیل ہے… بہت خطرناک۔‘‘ اور مَیں دل ہی دل میں کہہ رہا تھا ’’تم انسانوں سے پھر بھی بہتر ہوں۔‘‘

یہ شہرکی مویشی منڈی تھی۔ اُس فراڈیے نے گاؤں میں جو جُھوٹ بولا تھا، مجھ پرعیاں ہو چُکا تھا۔ کہیں کوئی سڑک نہیں بہی تھی۔ منڈی میں خریداروں کا ایک ہجوم لگا تھا۔ دام آسمانوں سےباتیں کررہے تھے۔ جو اجنبی مُجھے خرید کر لایا تھا، منڈی کے ٹھیکےدار سے کہہ رہا تھا کہ ’’اس ’’بگھے‘‘ کے مَیں نے پورے دو لاکھ بَھرے ہیں۔‘‘ خُود کو’’بگھا‘‘ کہنے پر دل چاہا کہ کھونٹا اُکھاڑ کرجاؤں اور اُسے روند ڈالوں، مگر مَیں تو اس کی بات سُن کر ہی حیرت سے ساکت ہوگیا۔ اس فریبی نے میرے مالک کو صرف ساٹھ ہزار دیےتھے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ قربانی جیسے مقدّس فریضے کے معاملے میں بھی انسان کیوں اس دھڑلے سے جُھوٹ پرجُھوٹ بولے چلے جارہے ہیں۔ 

میرا دل اُس وقت کٹ کر رہ گیا، جب میرے سامنے ٹھیکےدار نے مُجھے حاصل کرنے کے لیے پورے دو لاکھ بیس ہزار روپے اس فریبی کو ادا کیے۔ مَیں نے سوچا کہ جس نے مُجھے اتنی محنت اور محبّت سے پالا پوسا، اگر اُسے اتنے پیسے مل جاتے، تو اس کے سارے دلدّر دُور ہو جاتے۔ مَیں بمشکل تین دن مویشی منڈی میں رہا، لیکن اُن تین دنوں میں مَیں نے انسانوں کی عیّاری و مکّاری کے وہ وہ رنگ دیکھے کہ مُجھے اپنے جانور ہونے پر فخر محسوس ہونےلگا۔ 

مَیں نے دیکھا کہ ایک کم زور بچھڑے کو اُس کے مالک نے بیسن مِلا پانی پِلا پِلا کر اس کاپیٹ پُھلا دیا تاکہ وہ دیکھنے میں فربہ لگے اور اُس کے اچّھے خاصے دام وصول کرلیے۔ تب مَیں نے شُکر ادا کیا کہ مَیں ’’اشرف المخلوقات‘‘ نہیں ہوں۔ 

ایک بیوپاری نےکم عُمر بیل کو، جس کےابھی دانت بھی نہیں نکلے تھے، ایک بھولے بھالے گاہک کو خدا کی قسم کھا کر دو دانت کا بتایا اور فروخت کردیا۔ اس جھوٹے شخص نے اصل سے دُگنی رقم اُس کے عوض وصول کی اورچلتا بنا۔ یہ دیکھ کر مَیں نے دل ہی دل میں شُکر ادا کیا کہ ’’اچّھا ہے کہ مَیں بول نہیں سکتا، جھوٹی قسمیں نہیں کھا سکتا۔‘‘منڈی میں ایک گائے کی حالت کافی خراب ہو گئی، تو اس کا مالک بھاگا بھاگا ڈاکٹر کو لےآیا۔ 

ڈاکٹر نے اُسے بتایا کہ ’’یہ اب نہیں بچے گی۔‘‘ تو وہ گڑگڑانے لگا۔’ ڈاکٹر صاحب! غریب آدمی ہوں۔ برباد ہوجاؤں گا، کچھ کریں…‘‘ ڈاکٹر نے اُس سے چار ہزار روپے لے کے ایک انجیکشن لگایا اور کہا۔’’اِسے شام تک بیچ دینا۔ یہ شام تک بالکل بھلی چنگی محسوس ہوگی۔ اُس کے بعد کا کچھ پتا نہیں۔‘‘ اور اُس کے مالک نے ایک لاکھ ساٹھ ہزار کے عوض اُسے دو گھنٹے کے اندر اندر بیچ ڈالا۔ مَیں نے اللہ کا شُکراداکیا کہ مَیں ایک بیل ہوں۔ کم از کم یوں کسی کو دھوکا تو نہیں دے سکتا۔

منڈی میں بہت سے بچّے، جوان اور بوڑھے میرے ارد گرد منڈلاتے اور میرے ساتھ سیلفیاں بناتے رہے۔ ایک دن اُن میں سے ایک دوسرے سے بولا۔’’رفیق! اس بچھڑے کے ساتھ لے میری تصویر۔ یہی ڈالوں گا فیس بُک پر۔ جل جل کر مَرجائیں گے سارے رشتے دار۔ ویسے بھی کوئی گھر دیکھنے تھوڑی آئے گا کہ ہم نے کون سا بیل ذبح کیا ہے۔‘‘ مَیں نے دیکھا کہ اُس شخص کے ہاتھ میں ایک چھوٹی نسل کے دُبلے پتلے سے بیل کی رسّی تھی۔ 

مَیں نے دل میں کہا۔’’او بدبخت! اگر تُو اپنی نیّت دُرست رکھتا، تو تیری یہی قربانی ربّ کے نزدیک مُجھ سے افضل ہو جانی تھی۔‘‘ پھر ایک دن چرب زبان ٹھیکے دار نے میرا بھی سودا کر ڈالا۔ اُس نے قسم کھا کر خریدار کو بتایا تھا کہ مجھے اُس نے ’’تین بیس‘‘ میں خریدا ہے اور بالآخر تین لاکھ چالیس ہزار میں مُجھے بیچ ڈالا۔ یہ دیکھ کر تو میرا دماغ گھوم گیا۔ اگر اتنی رقم میرے مالک کو ملتی، تو اُس بےچارے کے وارے نیارے ہوجاتے۔ 

کیسے لاڈ پیار سےاُس نے مجھے پالا تھا۔ مگر افسوس…خرید کر لے جانے والے نے مُجھے بڑی شان سے اپنے گھر کے باہر باندھا۔ اُس کے بیٹے نے کہا کہ ’’ابّو! گھر کے اندرباندھ دیتے ہیں۔ صحن میں خاصی جگہ ہے۔‘‘ مگر اُس نے جواب دیا۔ ’’چُپکا رہ، ذرا محلّے میں دھاک تو بیٹھ جانے دے۔‘‘ وہ بڑی شان سے میرے پاس کھڑا ہرآتے جاتے کو بتارہا تھا کہ ’’چار اسّی‘‘ میں لایا ہوں بڑی مشکل سے۔ کم بخت ’’ساڑھے پانچ‘‘ سے نیچے ہی نہیں آرہا تھا۔‘‘ مَیں نے دل ہی دل میں اُسے کوسا کہ ’’او بد نصیب انسان! بس یہی حاصل ہو گا تُجھے میری قربانی کرکے کہ تیری ناک کچھ اونچی ہوجائے گی محلّے میں۔‘‘

میرا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ میرے ارد گرد کھڑے سب لوگ کل کی دعوت کی باتیں کر رہے تھے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ ’’پائے ضرور بھیجنا۔‘‘ کسی نے کہا کہ ’’باربی کیو پارٹی میں یاد رکھنا۔‘‘ پھر میرے نئے مالک نے اپنے بیٹے سے کہا کہ’’ کل یاد رکھنا کہ ماموں کو کلیجی بھیجنی ہے۔‘‘ سب کو کھانے پینے، نمود و نمائش ہی کی فکرتھی اور سُنّتِ ابراہیمیؑ کہیں دُور کھڑی ان پر کفِ افسوس مل رہی تھی۔