دانیال حسن چغتائی
اسلام کے معنی ہیں، کامل اطاعت، مکمل سُپردگی اور سچّی وفاداری اور قُربانی کے اس بےنظیرعمل کا مظاہرہ وہی شخص کرسکتا ہے کہ جو واقعتاً اپنی پوری شخصیت اور پوری زندگی میں اللہ کا مکمل اطاعت گزار ہو اور جس نے اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے سُپرد کر دیا ہو۔
لہٰذا، اگر ہماری زندگی اس بات کی گواہی نہیں دے رہی کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سچّے وفادار ہیں اور ہم نے اپنی پوری زندگی اللہ کے حوالے کردی ہے، تو ہم محض جانوروں کا خون بہا کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سُنّت تازہ نہیں کرسکتےاورنہ ہی اُس عہد کی تکمیل کر سکتے ہیں کہ جو ہم قُربانی کرتے وقت اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں۔
عیدالاضحیٰ کےموقعے پر قربانی کا اصل مقصد سُنّتِ ابراہیمیؑ کو زندہ کرنا اور حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیلؑ کے جذبات واحساسات کو دِل ودماغ کی گہرائیوں سے محسوس کرنا ہے۔ قُربانی کرتے وقت اگر ہمارے دل میں اللہ کی راہ میں قربان ہونے کی آرزو، خواہش، اللہ کی کامل اطاعت اور سب کچھ اُس کے حوالے کردینے کا عزم وحوصلہ نہ ہو، تو محض جانوروں کا خُون بہانا، گوشت تقسیم کرنا اور کھانا قُربانی نہیں، بلکہ ایک ایسی رسم ہے، جو ہم ہر سال مناتے ہیں اور یہ سوچ کر خُوش ہوتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابراہیمؑ کی سُنّت تازہ کردی۔
یاد رہے، اللہ تعالیٰ کو جانوروں کے خُون کی ضرورت ہے اور نہ گوشت کی۔ اُسے تو اِخلاص و وفا اور تقویٰ و جاں نثاری کا وہ احساس مطلوب ہے کہ جودِلوں کو مزیّن کرے۔ قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’اللہ کو نہ اِن جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، اُسے تو صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ (سورۃ الحج،آیت 38)
یہ تقویٰ اور اطاعت و فرماں برداری کا جوہر ہی قُربانی کی اصل رُوح ہے اور اللہ کے ہاں صرف وہی قُربانی شرفِ قبولیت پاتی ہے کہ جو متّقین فرماں برداری وجاں نثاری کے جذبات کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور وفاداری و اخلاص کے یہ جذبات اس طرح پیدا نہیں ہوتے کہ ہم گاہے گاہے اللہ کو یاد کر لیں اور کبھی کبھار کچھ ایسے مخصوص اعمال کرلیں کہ جو اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کی راہ میں قربانی کی علامت ہیں اور پھر اپنے افکارو خیالات، احساسات و جذبات، اخلاق ومعاملات اور اطاعت وفاداری کے سلسلے میں آزاد و خُود مختار ہوجائیں، جو چاہیں، کرتے پھریں اور اپنی مرضی سےکسی کی بھی اطاعت و فرماں برداری کا دَم بَھریں۔
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرنے کے بعد کہ ’’مَیں ربّ العالمین کا بندہ ہوں‘‘، اس بات کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ ہم ربّ ِذوالجلال کے سوا کسی کی اطاعت کریں۔ اپنے طور پر جائز وناجائز کا فیصلہ کریں اور اپنے مَن مانے طریقوں کی پیروی کریں۔
کیا ایسا ممکن ہے کہ محض جانوروں کا فدیہ دے کر ہم اپنی جانوں اور اپنی قوّت وصلاحیت کو جہاں چاہیں کھپاتے پھریں اور اللہ تعالیٰ سے یہ اُمید بھی کریں کہ وہ ہماری قربانی کو قبول کرلے گا۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُس کے بندے اپنی پوری زندگی اُس کے بتائے گئے اصولوں کے مطابق گزاریں، اُن سے کسی صُورت رُوگردانی نہ کریں اور اُس کے سوا کسی کی اطاعت نہ کریں۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عیدالاضحیٰ کے موقعے پر ہم جن برگزیدہ ہستیوں کی سُنّت تازہ کرتے ہیں، وہ زندگی کے ہر معاملے میں دینِ حنیف پرکاربند تھیں۔ اس ضمن میں ہمیں خصوصاً حضرت ابراہیمؑ کی زندگی کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے اور اُن کے جذبات و کیفیات کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے، بصورتِ دیگر محض ’’سالانہ تہوار‘‘ منانے کا کوئی فائدہ نہیں۔