یہ بقر عید سے کوئی دو ہفتے پہلے کی بات ہے۔ کراچی کے علاقے، برنس روڈ سے گزرتے ہوئے ایک پچاس، پچپن برس کے شخص پر گویا نظریں ٹھہر سی گئیں۔وہ ایک خُوب صورت سفید بکرے کی رسّی پکڑے ہم سے کچھ آگے آہستہ آہستہ جا رہا تھا۔ پیشانی، کانوں، پیٹ اور گھٹنوں پر موجود کالے دھبّوں نے بکرے کی خُوب صُورتی مزید بڑھا دی تھی۔جب ہم اُن صاحب کے قریب پہنچے، تو ستائشی انداز میں کہا،’’ ماشاء اللہ کیا ہی خُوب صُورت بکرا ہے۔
یقیناً اِسے بڑی محنت سے پالا ہوگا۔گھر کے پالے جانور کی قربانی کا تو اپنا ہی مزہ ہے۔‘‘ اِس پر وہ کچھ لمحوں تک ہماری طرف دیکھتے رہے، جیسے جواب کے لیے الفاظ ترتیب دے رہے ہوں۔ پھر بولے،’’ ہاں بکرا تو واقعی بہت زبردست ہے اور اسے پالا بھی محنت ہی سے گیا ہے، مگر مَیں نے اسے تھوڑی دیر پہلے سامنے والی گلی سے قربانی کے لیے خریدا ہے اور اب گھر لے کر جا رہا ہوں،جہاں بچّے اس کا انتظار کر رہے ہیں۔
باقی آپ کی یہ بات سولہ آنے درست ہے کہ گھر کے پالے جانور کی تو بات ہی الگ ہے،مگر اب کم ہی لوگ ایسا کرتے ہیں۔‘‘ اُن صاحب کی یہ بات سُن کر ہم اُس گلی کی طرف چل دئیے، جہاں سے اُنھوں نے بکرا خریدا تھا۔ ہم اِس سوال کا جواب جاننا چاہ رہے تھے کہ ایک زمانے میں گھروں میں سال بَھر قربانی کے جانور پالنا عام بات تھی، تو اب ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ ہر گلی محلّے میں کئی کئی گھر ایسے ہوتے، جہاں قربانی کے جانور، خاص طور پر بکرے اور دنبے ناز نخروں سے پالے جاتے۔ وہ اپنے مالکان سے بے حد مانوس ہوتے کہ اُنھیں گھر کے کسی فرد کی طرح رکھا جاتا۔
مالکان شام یا صبح کے اوقات میں اُنھیں باہر کا چکر بھی لگواتے،جس کے دَوران اُن کے گلوں سے رسیاں کھول دی جاتیں اور وہ مالکان کے پیچھے پیچھے چلتے رہتے۔ چوں کہ یہ قربانی کے لیے مخصوص ہوتے، تو لوگ اُن کا خاص احترام بھی کرتے۔ اُن کی خوراک کا بہت خیال رکھا جاتا۔ کئی گھرانوں میں تو اُنھیں عام خوارک کے ساتھ پستے، بادام وغیرہ بھی کِھلائے جاتے۔ہمارے ایک قریبی عزیز مدّتوں قربانی کے لیے بکرا پالتے رہے، جسے بہت بنا سنوار کر رکھا جاتا۔ذہن کی اسکرین پر اِسی طرح کے مناظر گھوم رہے تھے کہ ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے،جہاں بہت سے بکرے موجود تھے اور لوگ اُن کی خرید و فروخت میں مشغول تھے۔
’’ 55 ہزار سے کم میں تو وارے ہی میں نہیں آتا، اِس سے ایک روپیا بھی کم نہیں کروں گا‘‘، ’’ اِس کا وزن تو دیکھیں، زیادہ سے زیادہ 30 کلو ہوگا، 40 ہزار بہت ہیں، بس فائنل کریں‘‘، ’’ نہیں نہیں، پورے 55 ہزار لوں گا، بات وزن کی نہیں ہے، چیز بھی تو دیکھو، دُولھا ہے دُولھا‘‘،’’تمھاری چیز ہے، تمہاری مرضی، ویسے مَیں نے ریٹ مناسب لگائے ہیں۔‘‘ڈیل ناکام ہونے پر خریدار آگے بڑھا، تو ہم نے تعارف کے بعد پوچھا،’’ عید میں دو ہفتے رہ گئے ہیں، آپ اب خریداری کر رہے ہیں، بکرا گھر پر کیوں نہیں پال لیتے؟‘‘’’ ہاں میرے والد صاحب ایسا ہی کیا کرتے تھے،مگر اب ہمارے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں رہا۔‘‘
حنیف میمن نے اپنی بات مزید آگے بڑھائی،’’ ہم لوگ آرام باغ گوردوارے کے پاس رہتے ہیں، کشادہ گھر تھا، تو والد صاحب ہر سال بقر عید کے ایک، دو ہفتے بعد ہی بکرے کا بچّہ خرید لاتے، جسے قربانی کے لیے پالا جاتا۔ جب خاندان بڑھا، تو گھر چھوٹا پڑ گیا اور مجھ سمیت تین بھائی اپنے بچّوں سمیت فلیٹس میں منتقل ہوگئے۔ اب ساٹھ ستّر گز کے فلیٹس میں خود رہیں یا بکروں کو رکھیں۔ اگر فلیٹس بڑے بھی ہوں، تب بھی اُن میں جانوروں کو پالنا ممکن نہیں کہ صفائی ستھرائی کے مسائل کے ساتھ پڑوسیوں کو بھی طرح طرح کی شکایات ہوتی ہیں۔‘‘
ابھی یہ بات چیت ہو ہی رہی تھی کہ میمن صاحب کے ایک جاننے والے ہماری طرف نکل آئے۔’’ اِن سے بات کریں، اِنھیں قربانی کے لیے جانور پالنے کا بہت شوق ہے۔‘‘ ’’ تو پھر آپ اپنے اِس شوق کی تکمیل کیوں نہیں کرپاتے؟‘‘ہم نے عبدالرزاق سے پوچھا، تو وہ بولے،’’ جب مَیں کسی شخص کو قربانی کے جانورکے ساتھ دیکھتا ہوں، تو دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ اے کاش! مَیں بھی ایسا کرسکتا۔‘‘اِس پر ہم نے اپنا سوال پھر دُہرایا۔’’ ہاں ہاں اُسی طرف آ رہا ہوں۔‘‘پھر یہ وجہ بتائی،’’ اللہ کے فضل سے جگہ کا تو کوئی مسئلہ نہیں، مگر بات یہ ہے کہ بچّوں کا پیٹ پالنے کے لیے مجھے دو ملازمتیں کرنی پڑتی ہیں۔ گھر سے صبح 8 بجے نکلتا ہوں اور رات کو 10 بجے کے قریب واپسی ہوتی ہے، ایسے میں جانور کیسے پال سکتا ہوں؟ پھر یہ کہ اب منہگائی بھی بہت ہوچُکی ہے۔ لوگ ایک تو اِس لیے جانور پالتے ہیں کہ اُنھیں اس کا شوق ہے اور دوسری بات یہ بھی کہ اِس طرح جانور سستا پڑتا ہے، مگر اب اگرسال بھر کا حساب لگائیں ،تو حساب برابر ہی ہوجاتا ہے۔‘‘
جگہ کے مسائل، وقت کی کمی اور اخراجات میں بے تحاشا اضافے نے گھروں میں قربانی کے جانور پالنے کی روایت بہت کم کردی ہے، مگر اب بھی ایسے افراد کی کمی نہیں، جو کسی نہ کسی طرح اِس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ہمیں یاد آیا کہ محلّے میں صابر سبزی والے نے ایک دُنبہ پال رکھا ہے،جو اُن کی دُکان کی ایک طرف بندھا رہتا ہے اور گھر آتے، جاتے اُن کے پیچھے پیچھے چلتا ہے۔’’کب سے قربانی کے لیے جانور پال رہے ہیں؟‘‘ ہمارے استفسار پر ایک گاہک کو آلو سے بَھری تھیلی پکڑواتے ہوئے بولے،’’ 15 سال پہلے یہ سبزی کی دُکان کھولی تھی، اُس وقت سے ہر سال قربانی کے لیے دُنبہ پالتا ہوں۔
کِھلانے کا بھی زیادہ مسئلہ نہیں ،جو سبزیاں بچتی ہیں، وہ اِس کے حصّے میں آجاتی ہیں۔‘‘حاجی توفیق بھی ایک مدّت سے قربانی کا جانور پالتے چلے آ رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے،’’ گو کہ میرا گھر تو زیادہ بڑا نہیں ہے، مگر خوش قسمتی سے گلی میں ایک ایسی جگہ ملی ہوئی ہے، جہاں بکرا رکھ سکتا ہوں، اِس لیے جگہ کا مسئلہ نہیں ہوتا۔‘‘ ’’ سال بِھر جانور پالنا آسان کام تو نہیں، اِس کے لیے وقت چاہیے اور اخراجات بھی تو ہوتے ہیں؟‘‘
اِس سوال پر وہ بولے،’’ جھوٹ نہیں بولوں گا کہ مَیں بکرے کو خشک میوے اور دیسی گھی کِھلاتا ہوں۔ تیس ہزار تک کی نوکری کرتا ہوں،جس سے جیسے تیسے گزارہ ہو جاتا ہے۔ محلّے میں ایک دو سبزی اور پھل فروشوں سے بات کر رکھی ہے، شام کو گھر آتے ہوئے وہاں سے بچے کھچے پھل اورسبزیاں لیتا آتا ہوں۔ اُنھیں اچھی طرح صاف کرکے اور ٹکڑوں میں تقسیم کرکے ایک تھال میں رکھ کر بکرے کے سامنے رکھ دیتے ہیں، جنھیں وہ بہت شوق سے کھا لیتا ہے۔‘‘
محمود راؤ نے پچھلی بقر عید کے ایک ہفتے بعد ہی کئی بکرے خرید لیے تھے تاکہ اُن کی سال بھر پرورش کرکے قربانی کے لیے تیار کرسکیں۔اُنھوں نے تفصیلات یوں بیان کیں،’’مَیں نے گزشتہ برس اِس ارادے سے ایک درجن کے قریب بکرے خریدے کہ اُن میں کچھ کی خود قربانی کرلیں گے اور باقی فروخت کردوں گا۔ چوں کہ میرے پاس اپنا زرعی فارم ہے، اِس لیے جگہ اور اُن کی خوراک کے حوالے سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔نیز، بکروں کی دیکھ بھال اور خدمت کے لیے مناسب معاوضے پر کچھ افراد رکھ لیے تھے،جب کہ خود بھی اِس عمل کی مکمل طور پر نگرانی کرتا رہا۔
اللہ کا شُکر ہے کہ تمام بکروں کی بہت اچھی طرح پرورش ہوئی اور اُنھیں دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے۔ اِس طرح جہاں گھر کے پالے ہوئے جانور کی قربانی کا شوق پورا ہوا، وہیں بکروں کی فروخت سے آمدنی میں بھی اضافہ ہوا۔‘‘ محمّد وقاص بھی اِس عید الاضحٰی پر اپنا پالتو خُوب صورت بکرا قربان کر رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے،’’ ہمارا تعلق بنیادی طور پر مانسہرہ سے ہے اور تقریباً پانچ دہائیوں سے کراچی میں رہ رہے ہیں۔ والد صاحب گاؤں میں ہمیشہ گھر کے پالے ہوئے بکرے ہی کی قربانی کیا کرتے تھے اور کراچی آکر بھی کئی برس تک اِس روایت کی پابندی کرتے رہے۔
اُن کی وفات کے بعد سے ہم بھی اِس روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ہم متوسّط طبقے کی آبادی میں80 گز کے مکان میں رہتے ہیں۔ بلاشبہ چھوٹے گھر میں بکرا پالنا آسان نہیں، مگر شوق ہو تو یہ کام اِتنا مشکل بھی نہیں۔ ہم نے بکرے کے لیے گھر کی چھت پر ایک کونے میں چھپر ڈالا ہوا ہے،جو اُسے سردی، گرمی، دھوپ اور بارش سے تحفّظ فراہم کرتا ہے۔ ہم تو اُسے زیادہ وقت نہیں دے پاتے،البتہ والدہ اُس کا بے حد خیال رکھتی ہیں اور سچ پوچھیں تو ہر سال وہ ہی بکرا پالتی ہیں۔‘‘
گو کہ ملک محمّد یامین قربانی کے لیے سال بھر تو جانور نہیں پالتے، مگر پھر بھی اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہوسکے، جانور خرید لیا جائے تاکہ اُس کی کچھ خدمت کا موقع مل سکے۔ وہ کہتے ہیں،’’ مجھے بہت شوق ہے کہ اپنے قربانی کے جانور کی خود پرورش کروں اور بچّے بھی اِس پر اصرار کرتے ہیں۔ تاہم، مصروفیات اِس قدر بڑھ گئی ہیں کہ اب جانور پالنا آسان نہیں رہا کہ یہ ایک مکمل جاب ہے۔ لیکن پھر بھی ہماری کوشش ہوتی ہے کہ قربانی کے جانور کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرسکیں۔‘‘
جانوروں سے مانوس بچّے
کچھ عرصہ قبل ایک تصویر وائرل ہوئی تھی، جس میں ایک بچّہ بکرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے افسردہ بیٹھا تھا۔ یہ گھر کا پالا ہوا بکرا تھا، جسے فروخت کے لیے منڈی لایا گیا تھا۔ اگر قربانی کا جانور سال بھر گھر میں پالا جائے یا عید سے کافی دن پہلے خریدا جائے، تو اہلِ خانہ کو اُس سے ایک خاص طرح کی انسیت ہوجاتی ہے۔ چوں کہ بچّے قربانی کے جانوروں سے چِپکے رہتے ہیں، اُنھیں کھلانا پلانا، منہدی لگانی ہو یا باہر کا چکر لگوانا ہو، بچّے اِن کاموں میں سب سے آگے آگے ہوتے ہیں۔
یوں اُنھیں اِن جانوروں سے خاص لگاؤ ہوجاتا ہے، جس کے مناظر عید کے روز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بچّے جانور کی قربانی کا سُن کر ہی بگڑ جاتے ہیں۔ رو رو کر بُرا حال کرلیتے ہیں اور اُنھیں بچانے کے لیے خُوب ہاتھ پاؤں مارتے ہیں۔ بڑی عُمر کے افراد کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے، یہ الگ بات کہ اُنھیں اپنے جذبات پر قابو پانا آتا ہے۔ جب وہ اپنے ہاتھوں سے ایسے جانور کے گلے پر چُھری پھیرتے ہیں، جسے اُنھوں نے سال بھر لاڈ پیار سے پالا ہو، تو اُن کی آنکھوں میں بھی آنسو تیرنے لگتے ہیں۔