تاریخِ انسانی میں انبیائے کرامؑ نے اپنے قول و عمل، ہجرت و مجاہدے اور صبر و قربانی سے ایسی عظیم الشّان مثالیں قائم کیں، جو تمام انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ حضرت نوحؑ نے تقریباً ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو پیغامِ حق دیا۔ حضرت موسیٰؑ نے فرعون جیسے جابر و ظالم بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق بلند کیا، تو حضرت یوسفؑ نے جیل کی مشقّتیں برداشت کیں اور اقتدار کو دعوتِ حق و غلبۂ دین کا ذریعہ بنایا۔
حضرت عیسیٰؑ شفقت و حکمت اور صبر و برداشت کا ایک مثالی پیکر تھے۔ اِسی طرح نبی کریمﷺ نے انسانیت تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کے لیے جو مصائب، تکالیف برداشت کیں، اُن کا تصّور بھی محال ہے۔
اِسی سلسلے کی ایک قربانی ایسی ہے، جسے ربِ کائنات نے’’ذبحِ عظیم‘‘ کہا اور یہ قربانی تھی،حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی، جو اللہ کے خلیل(دوست) تھے اور اُن کے فرزند، حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی، جنہوں نے بلا جھجک خُود کو اپنے ربّ کی راہ میں پیش کیا۔
یہ قربانی اِس لیے بھی منفرد تھی کہ یہ فقط جذبات کی قربانی نہیں تھی، بلکہ نسل کی قربانی تھی۔ ایک ایسا بیٹا، جو بڑھاپے میں عطا ہوا ہو، آنکھوں کی ٹھنڈک ہو، جس سے نسل آگے چلے، اُسے ہی اللہ کے حضور پیش کرنا، تاریخِ انسانی کا سب سے بڑا امتحان تھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو خواب میں حکم ہوا کہ اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کریں۔ چوں کہ انبیائے کرامؑ کا خواب وحی ہوتا ہے، تو وہ اِس خواب کے فوراً بعد اپنے لختِ جگر کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے پر تیار ہوگئے۔ اِس ضمن میں قرآنِ پاک میں اِن دونوں باپ، بیٹے کے درمیان ہونے والے مکالمے کا گہرائی سے مطالعہ کریں، تو معلوم ہوگا کہ وہ عشق و معرفت اور اطاعت و قربانی کے کس اعلیٰ ترین مقام و مرتبے پر فائز تھے۔
اِس واقعے میں قربانی کا مرکزی نکتہ اولاد ہے، جو کسی بھی باپ کا سب سے قریبی رشتہ ہوتا ہے۔ اِس قربانی نے ہمیں سِکھایا کہ ایمان کا معیار کیا ہے؟ اللہ کے راستے میں دینا آسان ہے، مگر وہ چیز دینی، جو سب سے پیاری ہو، اصل قربانی اور امتحان ہے۔ اِسی جذبے کو علّامہ اقبال نے اپنی شاعری میں کچھ یوں بیان کیا۔؎یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی…سِکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی۔
اِس پس منظر میں ہمیں قربانی کو محض ایک رسم کی بجائے تعلیم و تربیت کا ذریعہ سمجھنا چاہیے۔ قربانی اُسی وقت حقیقی معنوں میں قربانی کہلاتی ہے، جب اُس میں دِکھاوا، ریاکاری اور تفاخر شامل نہ ہو۔ اگر عید الاضحیٰ پر جانور ذبح کرنے کا مقصد محض گوشت کا حصول ہو یا اپنا نام اونچا کرنا مقصود ہو، تو اِس عمل سے یہ دونوں مقاصد تو حاصل ہو ہی جاتے ہیں، مگر ایسا شخص قربانی کی رُوح اور اِس کے ثواب سے محروم رہتا ہے۔ قربانی کی غرض و غایت گوشت کا حصول نہیں، بلکہ تقویٰ و پرہیزگاری اور اخلاص و سچّائی کا حصول ہے۔
اِس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں جو ارشاد فرمایا ہے، اُس کا مفہوم یہ ہے کہ اُس تک قربانی کے جانور کا خون یا گوشت نہیں پہنچتا، بلکہ وہ تو ہمارے دِلوں کو دیکھتا ہے کہ یہ عمل کس نیّت کے ساتھ کیا گیا اور ہمارا تقویٰ و پرہیزگاری کس سطح پر ہے کہ اِس سارے عمل سے مطلوب یہی پرہیزگاری ہے۔
آج ہم منہگے سے منہگے جانور خریدتے ہیں، پھر اُن کا خُوب چرچا کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر تصاویر لگاتے ہیں اور بہانے بہانے سے سب کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ جانور کتنے میں خریدا ہے تاکہ دوسروں پر ہماری دولت، امیری کی دھاک بیٹھے۔ پھر عید کے روز جانور ذبح کرکے سارا گوشت یا اُس کے اچھے حصّے اپنے فریزر میں بَھر لیتے ہیں۔اور یوں قربانی یا سُنتِ ابراہیمی کے اِس عمل کے پس منظر میں جو پیغام اور مقصد تھا، وہ کہیں بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔
عید الاضحیٰ کا پیغام یہ ہے کہ ہم حق و سچ کی راہ میں بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار رہیں اور اِس ضمن میں کوئی خوف یا لالچ ہماری راہ کھوٹی نہ کرسکے۔ اِس اہم موقعے پر ہمیں اپنا تجزیہ اور احتساب کرنا چاہیے کہ کیا ہم ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے خطرات مول لے سکتے ہیں؟ کیا غریب کو اُن کے حقوق دِلوانے کے لیے قربانی دے سکتے ہیں؟کیا ہم سچ بولنے کی قیمت اپنی نوکری یا دوستی چھوڑنے کی صُورت ادا کر سکتے ہیں؟
کیا ہم دین کے دفاع کے لیے اپنی آسائشیں تَرک کر سکتے ہیں؟اگر ہم ایسا نہیں کرسکتے، تو پھر ہمیں حضرت ابراہیمؑ اور اُن کے صاحب زادے، حضرت اسماعیلؑ کے درمیان ہونے والے مکالمے کو ایک بار پھر، بلکہ بار بار پڑھنا، سمجھنا اور اُس کے پیغام کو اپنی رگِ جاں میں اُتارنا ہوگا۔نیز، اِس ضمن میں واقعاتِ کربلا کے مطالعے سے بھی ہمیں خاصی مدد مل سکتی ہے۔
آج اُمّتِ مسلمہ جن حالات سے گزر رہی ہے، وہ صرف دشمن کی چالوں کا نتیجہ نہیں، بلکہ ہماری اپنی غفلت، بزدلی اور قربانی سے گریز کا شاخسانہ ہے۔ ہمیں اپنے اجتماعی مفاد کے لیے انفرادی مفادات قربان کرنے ہوں گے۔ واقعۂ کربلا ہمیں سِکھاتا ہے کہ سچّائی پر قائم رہنا گرچہ مشکل تو ہے، مگر باعزّت راستہ یہی ہے۔
ہماری حالت تو یہ ہے کہ صبح کی نماز کے لیے اپنی نیند تک کی قربانی نہیں دے سکتے۔ حرام کمائی چھوڑ کے رزقِ حلال کی راہ اختیار نہیں کرپاتے۔ غیبت، جھوٹ، چغلی اور حسد جیسے مذموم امور سے توبہ تائب ہو کر دل کی پاکیزگی کی طرف نہیں بڑھتے، حالاں کہ یہ سب امور بھی قربانی کے ذیل میں شامل ہیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قربانی اللہ کے حضور مقبول ہو، تو ہمیں جانور کے ساتھ، اپنے ناپسندیدہ رویّوں پر بھی چُھری پھیرنی ہوگی۔ اِس طرح یہ قربانی مال، وقت اور خون کی حدود عبور کر کے رُوح کی پاکیزگی، نیّت کی سچّائی اور عمل کی قوّت میں ڈھل جائے گی اور یہی اِس عمل سے مطلوب و مقصود ہے۔