انسانی محنت یعنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کا استعمال نہ صرف انسانی شرف کی دلیل ہے، بلکہ اس کی مدد سے انسان اپنے لئے رزق، شعور، ٹیکنالوجی اور اپنے ماحول اور متعلقین کیلئے راحت و آسانیوں کی نوید لاتا ہے۔ اگرچہ انسانی محنتوں اور صلاحیتوں کا دیرینہ استعمال اب بھی جاری و ساری ہے، لیکن اب سادہ انسانی محنت اور مشقت ٹیکنالوجی کے ارتقا کی شکل میں وجود میں آ گئی ہے، جسکی برکتوں سے نئے پیشے وجود میں آ گئے ہیں، پیداوار میں تیزی آ گئی ہے اور صنعتوں کی جدت نے انسانی و حیوانی زندگیوں کو زیادہ کامیاب اور طاقتور بنا دیا ہے۔ ٹیکنالوجی کو اگر ماحولیات اور زندگیوں کے فائدہ کیلئے استعمال کیا جائے، انسانی محنت و ہنر کی کوکھ سے جنم لینے والی انڈسٹری جو مخلوق کے مفاد میں ہو، جس میں صحت، تعلیم، قابل تجدید توانائی اور معاشی و معاشرتی مسائل کے حل اور فوائد موجود ہوں، وہ ٹیکنالوجی اور انڈسٹری انسان دوست ہوتی ہے۔ ایسی صنعتیں انسان اور دیگر حیات کے مفادات کیلئے کام کرتی ہیں۔ وہ سوسائٹی کے استحکام کیلئے بامعنی حصہ ڈالتی ہیں۔ یوں زندگی اور کرۂ ارض دونوں کے تحفظ اور پائیداری کیلئے مضبوط بنیاد مہیا ہوتی ہے۔ لیکن افسوس کہ دنیا کی بیشتر تجارت اور صنعت و حرفت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے، جن کو ہم لالچی ساہوکار کہہ سکتے ہیں اور اکثر اوقات اپنے مالی مفادات کیلئےماحولیاتی تحفظ کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں تیل، جنگلات، پاورسیکٹر، انڈسٹری، ٹرانسپورٹ، مائننگ، اسٹیل، سیمنٹ کی تجارت سے وابستہ لوگ جو کسی بھی ماحولیاتی قانون اور اخلاقی ضوابط کو خاطر میں نہیں لاتے۔ انہوں نے اپنی کاروباری بےپروائیوں سے زمینی موسمیات کو تہہ و بالا کر دیا ہے اور زمینی وسائل کو محدود کر دیا ہے۔ تیل اور پیٹرو کیمیکل کے عالمی کارپوریٹ ادارے کئی سوسال تک یورپ اور شمالی امریکہ میں غلیظ تیل اور کوئلہ بطور ایندھن استعمال کرتے رہے، جس کی وجہ سے اوزون کی تہہ اور زمینی حدت ناقابل برداشت حد تک بڑھ رہی ہے۔ اس وقت بیسیوں آئل مصنوعات زمین پر موجود کاربن آلودگیوں میں 70فیصد حصہ دار ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے حالیہ تجزیہ کے مطابق تقریباً 23-انڈسٹریل ممالک کی وجہ سے 50فیصد ماحولیاتی تباہی پھیلی ہوئی ہے۔ ادارہ "Oxfan''کی ریسرچ کے مطابق 125-ارب پتی تاجر اور ساہوکار ہر سال تقریباً 3ملین ٹن کاربن فضا میں پھینکنے کے ذمہ دار ہیں۔ چنانچہ 1990ء سے لے کر 2024ء تک ان لوگوں نے اپنے کاروبار اور انڈسٹری کے ذریعے پوری انسانی تاریخ کے 50 فیصد برابر کاربن کا اخراج کر دیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان امیر ترین ساہو کاروں کی ماحول کش پالیسیوں اور کاروبار کے باعث 2020ء سے 2030ء کے درمیان 1.3ملین لوگ ٹمپریچر میں اضافہ کے مؤجب پیدا ہونے والی بیماریوں سے مر جائیں گے۔ اس رجحان کو بہرطور تبدیل کرنا لازم تھا۔ کارپوریٹ Pyramid کے ٹاپ پر بیٹھنے والے لوگوں کے رویے کو پوری دنیا میں زیربحث لانا ضروری تھا جو اب تک اس شعبہ میں احتساب سے بچے رہے۔ قریب تھا کہ یہ کرۂ ارض ان عالمی ساہو کاروں کی حرص و ہوس کی بنا پر اپنے ہی جسم سے بے دریغ نکالے گئے کوئلہ، تیل اور گیس کی حدت نیز کاربن کی شدت سے بربادیوں کا مسکن بن جاتا کہ عالمی دانشوروں، سائنسدانوں اور صحافیوں نے اس تباہی کا ادراک کر لیا اور عوامی حمایت سے ایک عظیم تحریک ’’گرین موومنٹ‘‘ کی بنیاد رکھ دی۔ یہ تحریک پچھلے چالیس سال سے قدرتی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور ماحولیاتی تحفظ وغیرہ کیلئے جدوجہد کر رہی ہے۔ اس تحریک نے دنیا بھر کی اقوام میں فضائی آلودگی، جنگلات کی کٹائی، تیل، گیس اور کوئلہ پر مبنی صنعت کی تباہ کاریوں، موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتی ہوئی عالمی حدت بارے آگاہی پیدا کر دی ہے۔ نیز کاروباری، صنعتی اور بین الاقوامی اداروں کو قائل کیا ہے کہ پائیدار اقدامات کے ذریعے توانائی، آبی وسائل اور زمینی معدنیات کو کم از کم خرچ کیا جائے تاکہ زمینی ماحولیات اور موسمیات کے تبدل کو کنٹرول کیا جا سکے۔ پیرس معاہدہ، کیوٹو پروٹوکول اور ریوڈی جنریو (برازیل) کے ماحولیاتی کنونشن اس تنظیم کی مساعی کا نتیجہ ہیں جن کے تحت اقوامِ عالم اب عالمی ماحولیاتی قوانین کے اطلاق پر متفق ہوئی ہیں۔ اگرچہ امریکی صدر کے حالیہ ماحول کش اقدامات اور معاہدہ پیرس سے انخلا نے ماحولیاتی اصلاح کی اس تحریک کو ایک دھچکا پہنچایا ہے، لیکن تنظیم کے رہنمائوں کو یقین ہے کہ مستقبل میں سیاسی تبدیلی یا عالمی مزاحمتی دبائو کے تحت تیل اور کوئلہ کے عالمی ساہوکار اور امریکی رہنما دوبارہ کرۂ ارض کے مفاد بارے سوچنا شروع کر دیں گے۔ فضا میں کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی، صنعتی فضلوں کا کنٹرول، قابل تجدید توانائی، جنگلات کا تحفظ، اوزون تہہ کی بحالی، نیوکلیئر تابکاری کی روک تھام، نیز انسان اور اسکے ماحول کے مابین صحتمند تعلق، ان شعبوں میں قانون سازی کیلئے ’’گرین موومنٹ‘‘ اب تک قابل قدر کامیابیاں سمیٹ چکی ہے۔
افسوس کہ ملک عزیز پاکستان میں ہم اب تک جمع خرچ پر گزارا کر رہے ہیں۔ اس احساس کے باوجود کہ پاکستان جیسے ممالک عالمی ماحولیاتی ابتری کا بدترین شکار ہیں۔ ہماری ترجیحات میں خوشنما بیانات، غیرملکی کانفرنسوں اور بیرونی امداد پر زور ہے۔ اس لئے کہ ماحولیاتی اصلاح کیلئے عملی اقدامات متعدد گروہوں کے کاروباری مفادات کو گزند بھی پہنچا سکتے ہیں۔ وہ ملک کہ جس میں سستے آبی وسائل کی دستیابی کے باوجود حکمران خاندان اور پالیسی ساز کم و بیش ہر دور میں کوئلہ، گیس اور تیل سے چلنے والے بجلی گھروں کو رواج دیتے رہے۔ ان اخراجات کی مد میں اربوں روپے کی ادائیگیوں میں مصروف رہے۔ وہ دریائی اور آبی وسائل کے ماحول دوست استعمال کیلئے کیونکر اتفاق کریں گے۔ ملک کی اشرافیہ تو ویسے بھی نئی کارپوریٹ سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ گندم کی کاشت کی حوصلہ شکنی کیسے ہو، تاکہ بوقت ضرورت درآمد کیا جا سکے۔ کپاس کی کاشت کو کیسے کم کرنا ہے، تاکہ کپاس بیلنے والے، دھاگا بنانے والے، ملبوسات تیار کرنے والے چھوٹے کارخانوں اور ہنرمندوں کے روزگار کو بند کیا جا سکے اور گنے جیسی میٹھی فصل اور زرتلافیوں سے بھرپور چینی کاروبار کو جاری رکھا جا سکے۔
؎ اج آکھاں وارث شاہ نوں کتے قبراں وچوں بول