وفاقی حکومت آئندہ آنے والے بجٹ میں عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف فراہم کرے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی ارکان پارلیمنٹ کی طرح خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔ کیونکہ اگر مہنگائی ارکان پارلیمنٹ کو متاثر کر سکتی ہے تو عام افراد تو اس سے زیادہ متاثر ہوتےہیں ۔ وطن عزیز میں دن بدن مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طوفان سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے حالیہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کا ریلیف ابھی تک غریب عوام کو نہیں مل پارہا ستم بالائے ستم یہ کہ نئے سلیب سسٹم کی وجہ سے بجلی کے یونٹ کی قیمت میں مزید اضافہ کردیا گیا ہے۔ شہباز شریف حکومت عوام کو مہنگائی،غربت اور بے روز گاری سے نجات دلانے کا اپنا انتخابی وعدہ پورا کرے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ غریب عوام ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگائی، غربت اور غیر یقینی حالات کی وجہ سے خود کشی کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں اس پر مستزاد یہ کہ پنجاب حکومت کی جانب سے بھی غریب لوگوں کی سواری موٹر سائیکل پر ٹیکس لگانے کیلئے اب نئی پالیسی بنائی جا رہی ہے۔ مقام افسوس ہے کہ عید قرباں کی آمد سے قبل ہی مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے عام شہری شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پسنے والے غریب عوام کیلئے روزمرہ کی اشیائے ضروریہ خریدنا مزید دشوار ہو گیا ہے۔ کھانے پینے کی اشیا ء کی قیمتوں میں بھی بے تحاشا اضافہ ہو گیا ہے۔ آٹا، چینی، گھی، دالیں، سبزیاں اور پھل سب مہنگے ہو چکے ہیں جبکہ سرکاری انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔چیک اینڈ بیلنس قائم رکھنے میں ناکامی حکومتی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان بن چکی ہے؟ المیہ یہ ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں بھی غیر فعال دکھائی دیتی ہیں اور عوام کو مجبوراً مہنگے داموں اشیاء خریدنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دیگر مسلم ممالک میں حکومتیں اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ عیدین اور اسلامی ایام کو مد نظر رکھتے ہوئے ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری نہ ہو سکے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں سخت قوانین نافذ کیے جاتے ہیں اور خلاف ورزی کرنے والوں پر بھاری جرمانے عائد کیے جاتے ہیں۔ ترکیہ اور ملائیشیا میں فلاحی منصوبے وسیع پیمانے پر متعارف کروائے جاتے ہیں، جہاں خوراک کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے اور بنیادی اشیاء پر نمایاں رعایت بھی دی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ غیر مسلم ممالک میں بھی سپر مارکیٹوں میں خصوصی رعایتی مہمات چلائی جاتی ہیں تاکہ مسلمان کم قیمت میں ضروری اشیاء حاصل کر سکیں۔ ہماری حکومت کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ پاکستان میں ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف فوری کارروائی کرتے ہوئے عام آدمی کو ریلیف فراہم کرے۔ اسی طرح حکومتی مشینری کو مہنگائی کے خلاف اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ غریب عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔ اس وقت ملک میں آئی ٹی کا مستقبل روشن ہے کیونکہ یہ آئی ٹی کا دور ہے۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو بھی جدید تقاضوں سے روشناس کروانا ہو گا تاکہ دنیا میں تیزی سے بدلتی صورتحال کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت نوجوانوں کو جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے ممکنہ مواقع فراہم کرے۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ کو جدید آئی ٹی اسکلز سے آراستہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دنیا آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی طرف بڑھ چکی ہے اور ہمارے طلبہ ابھی تک سی ڈی روم اور وہ چیزیں پڑھ رہے ہیں جن کا دور ختم ہو چکا ہے۔ ہماری نئی نسل میں بہت پوٹینشل ہے۔ ایمازون، شوپی فائے اور ایبے سمیت دیگر آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے غیر ملکی زرمبادلہ پاکستان لانے کیلئےنوجوان نسل کو تربیت دینی چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج ملک و قوم جن بدترین معاشی حالات سے دوچار ہیں ان میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کا برابر کا حصہ ہے۔ عوام نے دونوں جماعتوں کو بار بار آزما لیا،انھوں نے عوام کو جھوٹے وعدوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ سرکاری ادارے تباہ اور قومی خزانہ خالی ہو چکا ہے۔ بدعنوانی کا گراف آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ حکومت کی تمام معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف کے پروگرام کی محتاج ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک و قوم کو درپیش سیاسی و معاشی بحران سنگین ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ حکومت کے پاس اس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں ہے۔ عوام مہنگائی، بے روزگاری اور بجلی کے ہوشربا بلوں سے بد حال ہو چکے ہیں۔ حکومتی وزراء اور ارکان پارلیمنٹ نے اپنی تنخواہوں و مراعات میں تو اضافہ کر لیا ہے مگر عوام، تاجروں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد پر ٹیکسوں میں اضافہ کر کے ان کاعرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ ارباب اقتدار کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ جب تک حکومت عوام کو ریلیف فراہم نہیں کرتی اس وقت تک عام آدمی کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ سیاسی بے یقینی، معاشی ابتری اور سماجی تقسیم نے جہاں معاشرے کی بنیادیں ہلا دی ہیں وہیں آئینی اداروں کی حالت زار اور ان پر اٹھتے سوالوں نے بے یقینی کی فضا قائم کر دی ہے۔ حکومت کے اللوں تللوں کا بوجھ ملکی معیشت کیلئے نا قابل برداشت ہو چکا ہے، اس سے چھٹکارہ حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کو تعلیم اور روزگار کے مواقع میسر نہیں ہوتے۔ اس وقت پاکستان میں دنیا میں سب سے زیادہ 2 کروڑ سے زیادہ بچے اسکول سے باہر ہیں، دس سال سے کم عمر کے 79فیصد بچے پڑھنے کی سہولت سے محروم ہیں۔ پاکستان کے ذمہ قرضے مقررہ قانونی حد سے زیادہ 78فیصد کی بلند شرح پر ہیں، معاشی پالیسیوں میں عدم تسلسل کی وجہ سے سرمایہ کاری اور برآمدات کا فقدان ہے۔ اس وقت ہر شعبہ جمود کا شکار ہے۔