وزیر اعظم نے کوئٹہ میںہفتے کو بلوچستان گرینڈ جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے صوبے میں دہشت گردی اور بے چینی کی صورت حال کے تناظر میں بالکل درست طور پر اصل مسئلے اور اس کے حل کی نشان دہی کی ہے۔انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ان کے دور حکومت میں بلوچستان میں معاشی یا سماجی ناانصافی نہیں ہو سکتی جبکہ مسائل کو اجتماعی طور پر مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے گا۔ بلوچستان کے لوگوں کو بات چیت کے ذریعے شکایات کے ازالے کی کھلی دعوت دیتے ہوئے انہوں نے کہا میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کیا خلا ہے جسے ہم آپ کی تجاویز سے پر کر سکتے ہیں۔ بلاشبہ بلوچستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور عوام میں پائی جانے والی بے چینی جس کا سلسلہ عشروں سے جاری ہے، ہماری سیاسی قوتوں اور عسکری قیادت سب کی فوری توجہ کی متقاضی ہے۔بیش بہا معدنی وسائل سے مالا مال بلوچستان قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں ہی سے قبائلی نظام اور دیگر وجوہ کے باعث کسی نہ کسی درجے میں اضطراب اور عدم اطمینان کی کیفیت سے دوچار ہے ۔ قیمتی وسائل کی بنا پر بیرونی طاقتوں کی بھی اس صوبے پر نظر ہے اور عوامی سطح پر پایا جانے والا یہ عمومی تاثر بھی اس کیفیت کا ایک بڑا سبب ہے کہ صوبے کے وسائل سے مقامی آبادی کو اس کا جائز حصہ نہیں مل رہا ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں بار بار آئینی اور جمہوری نظام کے تعطل نے افہام و تفہیم کے ذریعے شکایات کے خاطر خواہ ازالے کی راہ ہموار نہیں ہونے دی ، جسکے باعث عوامی اضطراب شدید تر ہوتا رہا لیکن اسے بات چیت کے بجائے باربارطاقت کے بل پر ختم کرنے کی کوشش کی گئی تاہم یہ علاج ’’ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق حالات کو خراب تر کرنے کا سبب بنتا رہا ۔ یوں پاکستان مخالف قوتوں خصوصاً بھارت کو اپنے ایجنٹوں کے توسط سے مقامی آبادی میں نفرت کے بیج بونے اور دہشت گردی کو بڑھاتے چلے جانے کیلئے سازگار حالات میسر آتے چلے گئے۔پاکستان کو جارحیت کا نشانہ بنانے کے حالیہ بھارتی اقدام کا ہماری بہادر افواج کے ہاتھوں عبرتناک انجام سے دوچار ہونا ، نئی دہلی کے حکمرانوں کیلئے بین الاقوامی سطح پر جس ذلت و رسوائی کا سبب بنا ہے، اسکے بعد انہوں نے وزیر اعظم کے مطابق اپنے ایجنٹوں کوپاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیاں تیز کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔ ان حالات کو مثبت طور پر بدلنا اسی طرح ممکن ہے کہ مقامی آبادی شکایات کو کھلے دل سے سنا جائے اور ہر قسم کی حق تلفی کا پوری کشادہ دلی سے ازالہ کیا جائے۔ صوبے کے وسائل اور ترقیاتی منصوبوں میں مقامی آبادی کو زیادہ سے زیادہ حصہ دیا جائے ۔ لاپتا افراد کا مسئلہ مستقل طور پر حل کیا جائے کیونکہ کسی قانونی کارروائی کے بغیر ایک شخص کا اچانک اٹھا کر غائب کردیا جانا ،اس کے خاندان اور برادری کے سینکڑوں افراد میں ریاست کے خلاف منفی جذبات کو جنم دیتا ہے جس کے بعد پاکستان دشمن قوتوں کیلئے انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ بلوچستان میں عوامی فلاح و بہبود کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے وزیر اعظم کی جانب سے ملک کے ایک ہزار ارب کے مجموعی ترقیاتی بجٹ کا ایک چوتھائی یعنی ڈھائی سو ارب مختص کرنے کا اعلان بہت خوش آئند ہے ، اس رقم کی ایک ایک پائی کا درست استعمال یقینی بنایا جانا ضروری ہے تاکہ اسکے سو فی صد نتائج بلوچ عوام تک پہنچیں اور ان کی زندگیاں آسان اور خوشگوار ہوں۔ بلوچستان گرینڈ جرگہ کے بعد بات چیت کے عمل کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھنے اور نتیجہ خیز بنانے کی خاطر تمام ضروری اقدامات کا اہتمام ناگزیر ہے۔ ریاست سے بدگمان کردیے جانیوالے عناصرکو اسی طرح قومی دھارے میں واپس لاکر ملک کی تعمیر و ترقی میں شریک کیا جاسکتا اور خطے میں دشمن کے منصوبوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔