ہم نے ابھی تک ساری دنیا کا قرض واپس کرنا ہے مگر مودی جی دیکھ لیں آپ کا ادھار سود سمیت دیانت داری سے فوراً ہی واپس کر دیا ہے۔ کچھ من چلے دوران جنگ گھر کے گیراج میں کرکٹ کھیل رہے تھے کہ ایک بلے باز نے اتنی زور دار شاٹ کھیلی کہ تیز رفتار بم نما گیند فضا میں اڑتے بھارتی رافیل طیارے کو تباہ کرگئی۔ کون لوگ او تسی۔ ایسے ایسے کردار تخلیق کرتے ہیں کہ ٹرمپ بھی جگاڑی پاکستانیوں کی ذہانت، حیرت انگیز ایجادات پر عش عش کراٹھا ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو اپنی نگرانی میں پاک فوج کے جوانوں کے شانہ بہ شانہ لڑتے ہوئے بھارت پر میزائل باری کراتے ہیں، پاک فوج کو بہادر شہریوں کی دلیری پراتنا بھروسہ ہے کہ ہنستے مسکراتے ان کے ہاتھوں سے توپوں میں گولے فٹ کرواکے دشمن پر فائر کا موقع بھی فراہم کر دیتے ہیں۔ یہ خوب صورت مناظر ہم سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ چارلی چپلن بھی کیا خوب خاموش کردار تھا جس نے اپنی مزاحیہ اداکاری سے شاہکار خاکے تخلیق کئے کہ دنیاہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتی ہے۔ ایک منظر میں معاون اداکار چارلی کو تھپڑ پر تھپڑ مارے جارہا تھا۔ چارلی زمین پر گرا، مخالف کو غصے سے گُھور کر دیکھا، اپنے پاؤں سے جوتا اتارا، ہاتھ میں پکڑا، اوپر تلے تین چار جوتے سر پر مارے اور مودی کی طرح چاروں شانے چت کر دیا۔ ٹرمپ کی آمد پر رہائی کی آس امید رکھنے والوں کے بارے میں بھی ایک میم کچھ اس طرح سے ہے کہ بیک گراؤنڈ میں یہ گانا چل رہا ہے۔ ” ہم کو بھی غم نے مارا، تم کو بھی غم نے مارا“ مشترکہ دکھ کے عنوان کے ساتھ شاعر کا نام ”حافظ“ لکھا ہے ۔ طنزومزاح کے بعد موضوع کی سنجیدگی کی طرف لوٹتے ہیں۔ ٹرمپ پاکستان کے لوگوںکو بہترین ، رہنماؤں کو عظیم ترین قرار دے رہے ہیں یہ وہی صاحب ہیں جواکثر پاکستان کا محل وقوع، اہمیت بھول جاتے تھے۔ آج وہ وقت آگیا ہے کہ ان کی ہر اہم تقریرو گفتگو، پاکستان سے شروع اور اسی پر ختم ہوتی ہے۔ وہ جہاں دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان مسئلہ کشمیر حل کرانے کی بار بار یقین دہانی کراتے ہیں وہیں مودی کو بھارت میں اپنا اکلوتا یار بھی کہتے ہیں جبکہ ہمارا قومی نعرہ یہ ہے کہ ’مودی کا جو یار ہے ، غدار ہے غدار ہے۔‘ کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ کس پراعتبار کریں۔ جنگ بندی کے بعد امن مذاکرات کا کوئی مقام ہے نہ کوئی تاریخ۔ صرف ہمارے وزیراعظم جو اب شہباز کی طرح فضاؤں میں اُڑ رہے ہیں انہیں ہی امید ہے کہ یہ مذاکرات سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات میں ہوسکتے ہیں۔ تاحال ٹرمپ کی اس بارے میں خاموشی ایک ایسا لالی پاپ دکھائی دے رہی ہے کہ جسکی آڑ میں بھارت اپنے مذموم عزائم کی تکمیل چاہتا ہے۔ خضدار میں اسکول بس پر خودکش حملے میں چار معصوم طالبات سمیت چھ افراد کی شہادتیں کیا دنیا کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی نہیں کہ بھارت اپنے گھناؤنے عزائم سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ دہشت گردی کے اس سنگین واقعے کو صرف افسوس ناک قرار دے کر خاموش ہو جانا ایسا مجرمانہ فعل ہے کہ جسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ٹرمپ سمیت دنیا میں امن کی خواہش رکھنے والے اس سانحے کو حالیہ جنگ میں بھارت کی عبرت ناک شکست کے پس منظر میں دیکھتے۔ مودی جلاد کو خبردارکرتے کہ بی ایل اے، کالعدم ٹی ٹی پی جیسی پراکسیز کے ہاتھوں بے گناہ شہریوں، اسکول کی معصوم طالبات کو نشانہ بنانے سے ہر قیمت پر باز رہے۔ ٹرمپ اگر فریقین کے درمیان ثالث بن کر میدان میں اُتر ہی گئے ہیں تو منصف بن کر مجرم کو سزا وار قرار دیں۔ دہشت گردی میں ملوث بھارتی کرداروں کو انتباہ کریں کہ ان پر عالمی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ دنیا نے ہمارا سیسہ پلائی دیوار کی طرح مضبوط دفاع دیکھ لیا۔ ہمارا قومی ایجنڈا امن، مسئلہ کشمیر، فلسطین کا فوری حل، بھارتی آبی جارحیت، پاکستان میں بھارتی سرپرستی میں جاری دہشت گردی کے خلاف عالمی رائے عامہ ہموار کرنا ہے۔ جب ہم عالمی منظر نامے میں ٹرمپ کے حالیہ عالمی دوروں، معاہدوں، بیانات پر غور کرتے ہیں تو صاف نظر آرہا ہے کہ وہ اربوں ڈالر کے عوض امریکی اسلحہ، جنگی جہازوں کی تجارت کررہے ہیں۔ امریکی ذرائع سے ایسی اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ اسرائیل ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا چکا ہے،ٹرمپ کسی قیمت پر افغانستان میں موجود امریکی بگرام ایئر بیس کا کنٹرول کسی اور کے ہاتھوں میں دینے کو تیار نہیں۔ افغانستان سے انخلاکے دوران کابل میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت کی تحقیقات کا حکم دیا جا چکا ہے۔ گویا کہ افغانستان میں امریکی مفادات جُوں کے تُوں ہیں، چین افغان طالبان انتظامیہ کو سمجھانے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کالعدم دہشت گرد تنظیموں سے علیحدگی اختیار کرکے سی پیک منصوبے میں شراکت دار بنے۔ بیجنگ اجلاس سے قبل پاک بھارت جنگ کے دوران افغان انتظامیہ کی طاقت ور ترین شخصیت کا خفیہ دورہ بھارت اور بیجنگ میں سہ فریقی مذاکرات کے دوران وزرائےخارجہ کی باڈی لینگوئج سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چین پاکستان آہنی برادر ہیں جبکہ افغان وزیر خارجہ کسی اورطرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ میرا تا ثر ہے۔ خطے میں شدید کشیدگی، عالمی مفادات کا ٹکراؤ، اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ، ٹرمپ کی فلسطینیوں کی نسل کُشی پر خاموشی اور جنوبی افریقہ کے صدر سیرل راما فوسا پر سفید فام افراد کی نسل کُشی کا الزام اور اس موقع پر جنوبی افریقہ کے صدر کا طنزیہ یہ کہنا کہ جناب میرے پاس آپ کو دینے کیلئے قیمتی طیارہ نہیں ہے۔ اس موقع پرٹرمپ کا ایک بار پھر پاک بھارت جنگ بندی کو اپنا تاریخی کارنامہ قرار دینا، عملی طور پر جنگ بندی کے بعد کے مراحل پر یہ کہہ کر خاموش ہو جاناکہ دونوں ممالک کے ساتھ تجارت بڑھانے پر بات چیت ہو رہی ہے اگر ٹرمپ سنجیدہ ہوتے تو جنگ بندی کے ساتھ بھارت کو سندھ طاس معاہدہ فوری طور پر بحال کرنے پر مجبور کرسکتے تھے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا تو ہم کیسے آپ کے کہے پر اعتبار کرسکتے ہیں؟