گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں کیپٹو پاور پلانٹس لیوی بل 2025ءاکثریت سے منظور کرلیا گیا جسکی رو سے ہر کیپٹو پاور پلانٹ (CPP) وفاقی حکومت کو قدرتی گیس یا آر ایل این جی استعمال کرنے پر لیوی ادا کرے گا جو فوری طور پر 5فیصد ہے جس سے گیس کی قیمت 3500روپے سے بڑھ کر 4291mmbtu روپے ہوگئی ہے جو جولائی 2025 ءمیں مزید 10 فیصد، فروری 2026 میں 15 فیصد اور اگست 2026 ءمیں 20 فیصد بڑھا دی جائے گی جبکہ صارفین کیلئے بجلی کی قیمتوں میں مرحلہ وار کمی کی جائیگی جس کا مقصد گیس سے بجلی پیدا کرنیوالی صنعتوں کو نیشنل گرڈ پر منتقل کرنا ہے تاکہ یہ صنعتیں گیس کے بجائے بجلی استعمال کرسکیں لیکن اربوں روپے کی سرمایہ کاری سے کیپٹو پاور پلانٹس لگانے والے صنعتکاروں کو حکومت کا یہ فیصلہ منظور نہیں کیونکہ 1999 میں مشرف حکومت نے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث صنعتوں کو گیس سے چلنے والے کیپٹو پاور پلانٹ لگانے کی اجازت دی تھی جس کیلئے SNGC اور SSGC نے صنعتوں کو گیس کنکشن دیئے اور صنعتکاروں نے اربوں روپے کی سرمایہ کاری سے کیپٹو پاور پلانٹس لگائے جو انکی صنعتوں کیلئے بجلی پیدا کررہے ہیں۔
قارئین! کیپٹو پاور پلانٹ گیس سے اوسطاً ایک میگاواٹ سے 20میگاواٹ تک 80سے 90 فیصد Efficiency پر بلاتعطل 24 گھنٹے اپنی صنعتوں کیلئے بجلی پیدا کرتے ہیں جو ڈسکوز اور کے الیکٹرک کے مقابلے میں سستی ہوتی ہے۔ اسکے علاوہ CPP میں جنریٹرز سے ہیٹ ریکوری کے ذریعے بوائلرز سے ٹیکسٹائل صنعتوں کیلئے اسٹیم حاصل کی جاتی ہے جسکی وجہ سے CPP سے پیدا کی گئی بجلی کی اوسطاً قیمت حکومتی نرخوں سے کم پڑتی ہے لیکن آج 25 سال بعد حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر صنعتوں کی اپنی گیس سے بجلی پیدا کرنے کی سہولت ختم کرکے انہیں بجلی پر منتقل ہونے کا بل منظور کرلیا ہے اور بجلی کے نیشنل گرڈ پر منتقل نہ ہونے کی صورت میں صنعتوں کے گیس کنکشنز کاٹنے کا حکم دیا ہے۔ میں نے فیڈریشن ہائوس کراچی میں ایف پی سی سی آئی کے سینئر نائب صدر ثاقب فیاض مگوں کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں اس بل کی سختی سے مخالفت کی تھی۔ بزنس کمیونٹی کی مخالفت پر صدر آصف زرداری نے 3 وفاقی وزراء وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وزیر توانائی اویس لغاری، وزیر پیٹرولیم علی پرویز ملک اور وفاقی سیکریٹریز کو مذاکرات کیلئے کراچی بھیجا۔ وزیراعلیٰ ہائوس میں منعقدہ اجلاس میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ، پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی نوید قمر، پیپلز بزنس فورم کے صدر اور کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے میں نے شرکت کی جبکہ کراچی چیمبر کی طرف سے زبیر موتی والا، جاوید بلوانی، آصف انعام، فیڈریشن کی طرف سے ثا قب فیاض مگوں، فواد انور کریم، شبیر دیوان اور دیگر ممتاز صنعتکار بھی موجود تھے۔ اتوار کے روز ہونے والے طویل اجلاس میں وفاقی وزراء کو میں نے بتایا کہ نیشنل گرڈ پر منتقل ہونے سے صنعتوں بالخصوص ٹیکسٹائل کی پروسیسنگ انڈسٹریز کو بلاتعطل بجلی فراہم نہیں ہوسکتی، سندھ پاکستان کی 65 فیصد گیس پیدا کرتا ہے اور آئینی طور پر صوبہ سندھ کو یہ گیس استعمال کرنے کا پہلا حق حاصل ہے لیکن اب سندھ کی صنعتوں کی یہ برتری ختم ہوجائیگی۔ میں نے بتایا کہ سرکولر ڈیٹ اور بجلی کی ترسیل کے نقصانات میں کمی لانے کے بجائے صنعتی صارفین کی گیس سے بجلی پر منتقلی سےSNGC اور SSGC اربوں روپے کے مالی نقصانات کا شکار ہوسکتے ہیں۔ کیپٹو پاور سے نیشنل گرڈ پر منتقلی کا کوئی واضح ٹائم فریم بھی نہیں دیا گیا ہے۔ گرڈ پر منتقل ہونے کیلئے صنعتکاروں کو کروڑوں روپے کے آلات میں مزید سرمایہ کاری کرنا پڑے گی جبکہ اربوں روپے کے CPP حکومتی پالیسی کی وجہ سے بے کار ہوجائیں گے۔ سرمایہ کاروں کو سب سے بڑا خوف اور نقصان حکومت کی غیر تسلسل پالیسیوں سے رہا ہے جس کی مثال حکومت کا گیس سے بجلی پر منتقل ہونے کا قانون ہے جسکی وجہ سے بجلی کی کمی اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اربوں روپے کے گیس سے چلنے والے CPP اب ناکارہ نظر آئیں گے۔
اس قانون کا اصل مقصد نیشنل گرڈ میں موجود اضافی بجلی صنعت کو فراہم کرنا، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے گردشی قرضوں اور خسارے میں کمی لانا ہے جو آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور وزیر پیٹرولیم علی پرویز ملک نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے اسٹاف لیول معاہدے میں حکومت نے اس پر اتفاق کرلیا تھا لہٰذا بجٹ سے پہلے اس بل کو منظور کرانا پڑا۔
قارئین! اسی طرح کی صورتحال سولر پاور جنریشن کی ہے جہاں حکومت نے بجلی کے ٹیرف میں مسلسل اضافے سے مہنگی بجلی کے مدنظر لوگوں کو اپنے گھروں اور کمرشل اداروں میں شمسی توانائی پیدا کرنے کی اجازت دی جس کیلئے نیپرا نے نیٹ میٹرنگ کیلئے باقاعدہ لائسنس جاری کئے اور ڈسکوز 27روپے فی یونٹ سولر سے پیدا کی گئی بجلی خریدتے تھے جس کو اب کم کرکے 10 روپے فی یونٹ کردیا گیا ہے تاکہ سولر سے بجلی پیدا کرنے کے بجائے حکومت کی اضافی بجلی استعمال کی جائے لیکن یہ بھی حکومت کا ایک یوٹرن اور سولر توانائی کیلئے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہے۔ حکومتی پالیسیوں میں عدم تسلسل دراصل بغیر پلاننگ 8 ہزار میگاواٹ اضافی بجلی کو سسٹم میں کھپانا ہے، چاہے اس سے صنعتی اور گھریلو صارفین بری طرح متاثر ہوں۔