آئندہ مالی سال کیلئے قومی بجٹ کی تیاریاں آخری مراحل میں ہیں۔قومی معیشت چونکہ بحالی کے اہم ترین مرحلے میں ہے اور اس کی کامیابی کا زیادہ تر انحصار آئی ایم ایف کے قرضوں پر ہے،اس لیے نئے بجٹ کے اخراجات اور محصولات کی آمدنی میں توازن کیلئے اس کی شرائط کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔اس معاملے میں حکومت کی اپنی ترجیحات ،مصلحتیں اور مجبوریاں ہیںجبکہ آئی ایم ایف کو قرضوں کے استعمال اور واپسی کیلئے اپنی شرائط منوانا ہیں۔دونوں میں اتفاق رائے کیلئے بجٹ کی تاریخ بڑھانی پڑی۔اس طرح اب قومی بجٹ 10جون کو پیش کیا جائے گا۔نئے بجٹ کی تیاری میں حکومت کو ایک طرف بدلتے ہوئے علاقائی اور بین الاقوامی حالات میں قومی دفاع اور سلامتی کے تقاضوں اور دوسری طرف عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کی فکر ہے۔صدر مملکت سے وزیراعظم کی حالیہ ملاقات میںان معاملات پر تبادلہ خیال ہوا صدر زرداری نے بھی عوام دوست بجٹ پر زور دیا۔ عالمی حالات کو دیکھتے ہوئے اعلیٰ سطح پر کیش لیس معیشت کی ضرورت بھی اجاگر ہورہی ہے،جس کیلئے اقدامات شروع ہوگئے ہیں۔وفاقی حکومت نیا ٹیکس اور ٹرانزیکشن نظام متعارف کرانا چاہتی ہے،جو نقد ادائیگی کی بجائے دستاویزی سسٹم پر مبنی ہوگا۔پیٹرولیم ڈیلرز،مینوفیکچررزاور درآمد کنندگان کیش سیلز کی صورت میں اضافی رقم وصول کرنے کے مستحق ہوں گے۔تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس کی شرح میں معمولی کمی کی تجویز ہے۔آئی ایم ایف کو ٹیکسوں میں کمی پر اعتراض ہےاور اس کمی کو پورا کرنے کیلئے متبادل تجاویز مانگی جارہی ہیں۔اسی لیے حکومت سےاس کے وفد کی بات چیت آگے چل کر کسی متفقہ فارمولے پر منتج ہوگی۔بھارت سے کشیدگی اور حالیہ جنگ کے بعد دفاعی اخراجات میں معقول اضافہ ناگزیر ہوچکا ہے جس کیلئے بجٹ میں گنجائش نکالنا پڑے گی ۔ایف بی آر کی طرف سے ٹیکس وصولی میں ایک ٹریلین روپے کی کمی پر بھی تشویش ظاہر کی جارہی ہے۔وزیرخزانہ اس صورتحال پر وزارت پیٹرولیم،بینکوں ،مالیاتی اداروں اور کنسلٹینسی فرموں سے مسلسل مشاورت کررہے ہیں،تاکہ مسئلے کا تکنیکی حل نکالا جاسکے۔یہ معاملہ بھی اٹھایاجاسکتا ہے کہ تمام تر احتیاطی اقدامات کے باوجود فائلر اور نان فائلر اب بھی ٹیکس چوری میں ملوث ہیں،جن کی مالیت1.3ٹریلین روپے ہے،حکومت جو ترقیاتی بجٹ بناتی ہے اس پر پوری طرح عمل نہیں ہوپاتا۔ایک رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں سے حکومت صرف54فیصد خرچ کرسکی۔کیش لیس معیشت کے نفاذ میں مشکلات کے علاوہ تنخواہ دار اور کم آمدنی والے طبقوں کو ریلیف دینے میں بھی مشکلات حائل ہیں۔تنخواہ داروں کو ریلیف دینے کیلئے بچت اسکیموں اوربینکوں میں ڈیپازٹ پر شرح ٹیکس میں 2فیصد اضافے پر غور ہورہا ہے ،جس کا اطلاق فائلر اور نان فائلر دونوں پر ہوگا۔آئی ایم ایف نے اس کی ابھی حتمی منظوری نہیں دی لیکن یہ بات بھی محل نظر ہے کہ بینکوں اور بچت اسکیموں پر انحصار کرنے والوں کی زندگی اس سے اور زیادہ مشکل ہوجائے گی اور کمرشل بینکوں کو بھی اس سے نقصان پہنچے گا۔ کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت نے اپنے مالیاتی اقدامات سے ملک کودیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے۔مگر پائیدار معاشی استحکام کیلئے اسے ابھی مزید بہت کچھ کرنا ہے۔آنے والا بجٹ ماضی کی روایات سے ہٹ کر بنایا جارہا ہے ۔وقت کے ساتھ ہی اس کے فوائد سامنے آئیں گے،کامیابی اسی کو ملتی ہے جو نئے نظریات کے ساتھ چلے۔موجودہ حکومت کے معاشی معاونین تجربہ کار لوگ ہیں ،عالمی حقائق پر نظر رکھتے ہیں ۔توقع کی جانی چاہئے کہ ملک کے نئے بجٹ سے قومی معیشت تعمیروترقی کی نقیب بھی ثابت ہوگی اور اس سے حکومت کی ساکھ میں اضافہ ہوگا۔