• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان دشمن قوتوں کا تعاقب کرنا ہوگا
رینجرزنے سینیٹ فنکشنل کمیٹی انسانی حقوق کے اجلاس میں کراچی کی صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ٹارگٹ کلرز کی 3 ملکوں جنوبی افریقہ، تھائی لینڈ اور برطانیہ سے فنڈنگ کی جارہی ہے، پوپ کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ جنگوں کی وجہ مذہب نہیں، اسی طرح ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ دہشت گردی کی وجہ مذہب نہیں، پیسہ ہے، اورظاہر ہے پیسہ، پیسے والوںکے پاس ہوتا ہے اس لئے وسیع پیمانے پر ٹارگٹ کلرز کی کراچی میں مالی معاونت امیر ممالک ہی کرتے ہیں، یاغریب ممالک کے ذریعے امیر ممالک کرتے ہیں، کراچی میں باہر سے دہشت گردوں کو فنڈنگ جو تین ممالک رینجرز کے مطابق کررہے ہیں ان کا پاکستان نے کیا بگاڑا ہے، رینجرز کی اس چشم کشا بریفنگ کے بعد کراچی کی صورتحال کو درست کرنا اب مشکل نہیں، لیکن اس کے لئے سندھ حکومت کو کھل کر رینجرز کو اختیارات دینا ہوں گے، اورانہیں راستے کی بڑی سے بڑی رکاوٹ پر ہاتھ ڈالنے کی اجازت ہوگی، تب ہی یہ شہر اپنی سابقہ حالت پر لایا جاسکتا ہے، فنڈنگ کے معاملے کو اقوام متحدہ میں اٹھانا چاہئے، اور ہماری حکومت کو پہلے اقدام کے طور پر مذکورہ تینوں ملکوں کی قیادت سے پوچھنا چاہئے کہ وہ کراچی کے امن کو کیوں تباہ کرنا چاہتے ہیں، اور ہمارے حکمرانوں کو اب پاکستان دشمن بیرونی قوتوں کے چہرے پہچان کر ان سے ڈیلنگ کرنا چاہئے، اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مسلم دنیا میں بطور خاص پاکستان کئی غیر مسلم ممالک کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے، ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ ہماری سفارتکاری پوری دنیا میں اب تک ناکام رہی ہے، جبکہ بھارت اس سلسلے میں بڑا فعال کردارادا کررہا ہے، ہماری ایجنسیوں کو باہر سے آنے والی فنڈنگ کا سراغ لگانا ہوگا اور حکومت کو اسے ہر ممکن طریقے سے روکنا ہوگا۔
٭٭٭٭٭
مصیبت پال معاشرہ
لاہور سمیت کئی شہروں میں موسلادھار بارش، دریا اور نالے بپھر گئے، لوڈشیڈنگ میں پھر بھی کمی نہ آئی؎
ہم تو سمجھے تھے کہ برسات میں رک جائے گی لوڈشیڈنگ
آئی برسات تو برسات نے دل توڑ دیا
بہرحال ہم کیوں برکھا بہار میں نگوڑی لوڈشیڈنگ کا ذکر کر کے اپنے منہ کا ذائقہ خراب کریں، ابھی پکوڑا منہ میں ڈالا ہوتا ہے کہ بجلی چلی جاتی ہے، موسم کی خوشگواری ایک طلسم ہے کہ روتوں کو ہنسا دیتا ہے، غصیلے لوگ بھی ہنس ہنس کے بات کرتے ہیں، برسات اور آم ان دنوں عام ہیں، مگر کیا کیجئے عوام الناس کا کہ کسی نہ کسی بھولی بسری غم کی بات کو بھی یاد رکھتے ہیں، جسے دیکھو اس نے کوئی نہ کوئی درد پال رکھا ہے اور اس کی خوب سیوا کرتا ہے، اور کبھی کبھی تو ماضی کے غم حال کے مہلک مرض بن جاتے ہیں، ہماری جلد بازیوں سے بھی کوئی کام جلد نہیں ہوتا، کہ یہاں ایک آفاقی کیلنڈر ہی چلتا ہے، خوش رہنے اور خوش رکھنے میں تھوڑی سی تکلیف تو ہوتی ہے، لیکن دامن میں میٹھا پھل آگرتا ہے، ضروری نہیں کہ ہر بات کو یاد رکھا جائے، اچھے اچھے افراد کے چہرے دیکھنے سے بھی کافی افاقہ ہوتا ہے بشرطیکہ شوق دید کا سلیقہ آتا ہو، اوربعض لوگ تو ایسے صاحب فیض ہوتے ہیں کہ ان کو دیکھتے ہی دل پکار اٹھتا ہے؎
تم آگئے ہو کہ نور آگیا ہے
ورنہ چراغوں سے لو جارہی تھی
ملہار کی رت میں دیپک الاپنا ٹھیک نہیں، ہر انسان میں مزاج کی ایک لطیف حس رکھ دی گئی ہے مگر ہم نے کبھی اسے ٹٹول کر نہیں دیکھا منفی ذہنیت کا ہمارے ہاں بڑا بول بالا ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: برا خواب دیکھ کر اچھی سی تعبیر کر لیا کرو ڈرائونا خواب بھی سہانا ہو جائے گا۔
٭٭٭٭٭
ایک قائم علی شاہ ہی ہیں تنہا!
قائم علی شاہ کی جاتے جاتے ایک اور غلطی، استعفے پر 2016ء کے بجائے 201ء لکھ دیا۔ آورگون کے مطابق ممکن ہے 201ء میں بھی قائم علی شاہ وزیراعلیٰ رہے ہوں، اسی لئے تو زرداری نے بارہا سائیں سے کہا؎
غلطی سے کھیلتے ہو بار بار کس لئے
مگر یہ مت بھولیں کہ اس ملک میں قائم علی شاہ فقط ایک نہیں، اس طرح کے وزیر مشیر کئی ہیں، اور وزراء اعلیٰ بھی ہر دور میں موجود رہے ہیں، فرق اتنا ہے کہ شاہ جی سوتے میں جاگنے کا خواب دیکھتے تھے دوسرے جاگتے میں سوتے ہیں،الغرض بقول مرزا غالب؎
’’ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب سے ‘‘، پی پی کے وسان صاحب خواب میں خواب دیکھتے ہیں، بلکہ اس ٹائپ کے تمام حضرات جو چلتے پھرتے نظر آتے ہیں، تو بھی سوتے میں محو خرام رہتے ہیں، اور ایسے مرض یا صلاحیت کو ’’کابوس‘‘ کہتے ہیں، یہ ایک مرض ہے جو صاحبان اقتدار ہی کو لگتا ہے، کیونکہ عوام تو جب سے حکمران سوئے ہیں، جاگتے ہی رہتے ہیں، اور نیند میں بھی تھکتے رہتے ہیں، قائم علی شاہ کو ان کی خوابیدہ خدمات کے صلے میں تاحیات اعزازی وزیراعلیٰ بنا دینا چاہئے، تاکہ لوگ انہیں وزیراعلیٰ شاہ کہتے رہیں اور وہ اپنے خوابوں میں اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں، قائم علی شاہ اپنے دو رمیں حسین غلطیوں کی ایک تاریخ رقم کر گئے ہیں، ممکن ہے وہ بھول بھی گئے ہوں کہ وہ سندھ کے وزیراعلیٰ تھے،۔ بھول جانا اتنی بری بیماری نہیں یہ کئی آفات سے بچاتی بھی ہے، انہوں نے جاتے ہوئے ایک خوبصورت بات کی کہ وزارت اعلیٰ پارٹی کی امانت تھی واپس پارٹی کے حوالے کردی، وہ ایک سوئے ہوئے بھولنے والے تھنک ٹینک ہیں، اسی لئے انہوں نے ٹینکوں والوں کو پورے اختیارات نہیں دیئے۔
٭٭٭٭٭
نندیاسے جاگی بہار!
٭..... برسات کے پکوڑے نم آلود موسم کی بیماریوں کا علاج اور مل بیٹھنے کا لذیز بہانہ ہے،
٭..... ایک قاری: بس یہی المیہ ہے اس دور کا کہ تیری دیوار سے اونچی میری دیوار بنے۔
٭..... غالب کا ایک شعر برستی پھوار کے نام؎
چاہئے اچھوں کو جتنا چاہئے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہئے
٭..... موسیقی کا بھی ہماری زندگی میں بڑا رول ہے، مگر وہ موسیقی ہی ہونی چاہئے شور آلودگی نہیں، نئی نسل نے کب استاد برکت علی خان کو سنا ہوگا، وہ تو خود ایسی استاد ہے کہ استادوں کو جانتی تک نہیں استاد برکت علی خان اور ان کا یہ گیت کیا کہتا ہے؎
باغوں میں پڑے جھولے،
تم ہمیں بھول گئے ہم تم کو نہیں بھولے،
راوی کا کنارا ہو اور ساتھ تمہارا ہو،
اور یہ کہ؎
درد اٹھ اٹھ کر بتاتا ہے ٹھکانہ دل کا،
ستار کے تار کتنی ہی کہی ان کہی باتیں سناتے ہیں مگر ہم گٹار ہی کی سنتے ہیں ستار بارے ہی رومی نے کہا تھا؎
خشک تار و خشک چوب و خشک پوست
از کجا می آید ایں آواز دوست
(خشک تاریں ہیں، خشک لکڑی ہے، خشک چمڑا ہے، یہ یار کی آواز کہاں سے آئی ہے)
(نوجوان آئین نو کو ضرور اپنائیں لیکن طرز کہن کو بھی نہ بھولیں، کہ اچھی چیز زمان و مکان کی محتاج نہیں ہوتی)



.
تازہ ترین